Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
(وازلفت الجنۃ للمتقین۔۔۔۔۔ ) 1 ؎۔ صحیح مسلم، باب فی صفۃ الجنۃ، جلد 2 ص 380 وازلغت الجتۃ للمتقین یعنی جنت قریب کردی گئی تاکہ وہ اس میں داخل ہوں۔ زجاج نے کہا : ان کا اس میں داخل ہونا قریب ہوگیا۔ وبزرب الجحیم اور جہنم ظاہر کردی گئی للغوین ان کافروں کے لیے ہے جو ہدایت سے گمراہ ہوئے، یعنی جہنم جہنمیوں کے لیے ان کے دخل ہونے سے پہلے ظاہر کردی جائے گی یہاں تک کہ وہ خوف اور حزن محسوس کریں گے جس طرح جتنی محسوس کریں گے کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ وقیل لھم ایتما کنتم تعبدون۔ من دون اللہ، من دون اللہ سے مراد بہت اور شریک ہیں۔ ھل ینصرونکم کیا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے تمہاری مدد کریں گے۔ او ینتصرون یا اپنے لیے انتقام لے سکتے ہیں، یہ سب تو بیخ کے طریقہ پر ہے۔ فلبکموا فیھا انہیں جہنم میں ان کے سروں کے بل گرا دیا جائے گا، ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان میں سے بعض کو بعض پر پھینتک دیا جائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہیں جمع کیا جائے گا۔ یہ کبکبہ سے مآخوذ ہے جس سے مراد جماعت ہے، یہ ہر وی کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : یہ کواکب الشئی سے مشتق ہے جس کا معنی اس کا بڑا حصہ ہے۔ گھوڑوں کی جماعت کو کو کب اور کیکبہ کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : انہیں جمع کیا گیا اور جہنم میں پھینک دیا گیا۔ مجاہد نے کہا : انہیں گڑھے میں پھینکا گیا۔ مقاتل نے کہا : انہیں پھینکا گیا معنی ایک ہی ہے تو کہتا ہے : دھورت الثیء جب تو اسے جمع کرے پھر اسے گڑھے میں پھینک دے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : ھوید ھور القم وہ لقمے کو گھماتا ہے یہ صورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ لقمے کو بڑا کرے۔ دعا میں یہ جملہ بولا جاتا ہے : کتب اللہ عدو المسلمین، اکبہ نہیں کہا جاتا کبکیہ یعنی اسے منہ کے بل گرایا اور اسے لٹ دیا۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : فلیکموا فیھا اصل کبیوا تھا درمیانی باء کو ثقل کی وجہ سے کاف میں بدل دیا کیونکہ تین باء جمع ہوگئے تھے۔ سدی نے کہا : کیکبوا میں ضمیر مشرکین عرب کے لیے ہے : والغاون مراد معبود ہیں۔ وجمود ابلیس جو اس کی ذریت میں سے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس نے اسے بتوں کی عبادت کی دعوت دی تو اس نے اس کی پیروی کی۔ قتادہ، کلبی اور مقاتل نے کہا : الغاون سے مراد شیاطین ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے جب آگ میں پھینکے جائیں گے، وہ لوہے اور تانبے کے ہوں گے تاکہ ان کے ساتھ غیروں کو عذاب دیا جائے۔ قالو اوھم فیھا یختصمون وہ اس جھگڑ رہے ہوں گے مراد انسان، شیاطین، گمراہ اور معبود باطلہ۔ تاللہ ان کنا لفی ضلل مبین وہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھائیں گے ہم خسارہ، ہلاکت اور حق سے واضح حیرت میں تھے جب ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود بنا لیے تو ہم نے ان کی عبادت کی جس طرح ان کی عبادت کی جاتی تھی۔ یہی اس اشارد کا معنی ہے۔ اذ تسویکم برب العٰلمین یعنی ہم تمہیں عبادت میں رب العالمین کے ساتھ برابر کرنے والے ہیں اب تم نہ ہماری مدد کی طاقت رکھتے ہو اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ وما اصلنا الا المجرمون مجرموں سے مراد شیاطین ہیں جنہوں نے ہمارے لیے بتوں کو مزین کیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مرادہمارے اسلاف ہیں جن کی ہم نے تقلید کی۔ ابو العالیہ اور عکرمہ نے کہا : مجرمون سے مراد ابلیس اور حضرت آدم (علیہ السلام) کا وہ بیٹا جس نے قتل کیا تھا دونوں وہ پہلے افراد ہیں جنہوں نے کفر، قتل اور مختلف قسم کے معاصی کی سنت قائم کی۔
Top