Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بیشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
تفسیر ابن جریر میں حضرت علی ؓ کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بنی نجار قبیلہ کے کچھ لوگوں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ حضرت ہم لوگ سفر کرتے رہتے ہیں سفر میں ہم نماز کیوں کر پڑھا کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا وہ ٹکڑا نازل فرمایا جس میں نماز کے قصر کرنے کا حکم ہے پھر اس کے ایک برس کے بعد آنحضرت ﷺ ایک لڑائی پر تشریف لے گئے۔ دشمنوں کے عین مقابلہ کے وقت آپ نے ظہر کی نماز پڑہی نماز کے وقت تو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ لیکن جب آپ اور صحابہ کرام جماعت کی نماز پڑھ چکے تو خالد بن ولید نے جو مشرکوں کے لشکر کے سردار تھے بڑے افسوس کے ساتھ اپنے لشکر والوں سے یہ کہا کہ جس وقت سب مسلمان صف باندھ کر نماز میں مشغول تھے اس وقت ان کی پشت کی طرف سے ان پر حملہ کرنے کا خوب موقع تھا پھر یہ بھی کہا کہ تھوڑی دیر میں اور دوسری نماز کا موقعہ ہے۔ جس نماز کو مسلمان لوگ اپنی جان اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے ظہر اور عصر کے ما بین میں یہ صلوٰۃ الخوف کا حکم نازل فرمایا 2۔ اور جس طرح مشرکوں نے عصر کی نماز کے وقت مسلمانوں کی پشت کی طرف سے حملہ کرنے کا منصوبہ کیا تھا۔ وہ موقع ان کو نہیں ملا۔ اگرچہ حافظ ابن کثیر نے اس شان نزول کی روایت کو غریب کہا ہے لیکن اور صحیح روایتوں میں اس کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ صحیح مسلم اور سنن میں حضرت عمر ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے قصر نماز میں خوف کی قید کی بابت آنحضرت ﷺ سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ بغیر خوف کے سفر میں نماز کا قصہ کرنا۔ یہ صدقہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ایک مہربانی ہے اس کو قبول کرنا چاہیے 3۔ حضرت عمر ؓ کی یہ حدیث بہت صحیح ہے ائمہ حدیث نے بالاتفاق اس کی صحت بیان کی ہے۔ اور اس صحیح حدیث سے اوپر کی شان نزول کی روایت کے اس ٹکڑے کی پوری تائید ہوتی ہے کہ بغیر حالت خوف کے سفر میں قصر نماز جائز ہے رہا اس شان نزول کا دوسرا ٹکڑا کہ ایک لڑائی میں ظہر اور عصر کے ما بین میں صلوٰۃ الخوف کا حکم ہوا اس کی تائید آئندہ کی آیت کی شان نزول سے ہوسکتی ہے آنحضرت ﷺ کا فعل بھی یہی پایا جاتا ہے کہ حالت سفر میں آپ اکثر قصر کیا کرتے تھے 1۔ رہی یہ بات کہ کس قدر مسافت کے سفر میں قصر نماز پڑھنی چاہیے اس باب میں حضرت انس ؓ کی صحیح مسلم کی روایت سے بڑھ کر کوئی صحیح روایت نہیں ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تین میل یا نو میل کی مسافت کی سفر میں آپ قصر کیا کرتے تھے 2۔ اس سے زیادہ کی تفصیل اس مسئلہ کی بڑی کتابوں میں ہے 3۔
Top