Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اسکے سوا (اور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دیگا اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ راستے سے دور جا پڑا
(116 ۔ 122) ۔ اس سے پہلے یہ آیت اہل کتاب کے ذکر میں تھی اس لئے وہاں فقد افتری ( 4۔ 48) فرمایا تھا کیونکہ اہل کتاب کا شرک جان بوجھ کر افتراء کے طور پر تھا یہاں عرب کے مشرکوں اور مرتدلوگوں کا ذکر ہے اس لئے فقد ضل فرمایا کہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ ان کی جہالت کا سبب ہے، باقی معنی آیت کے پہلی جگہ جہاں یہ ہے۔ وہاں بیان کئے گئے ہیں عرب کے مشرک لوگ اپنے بتوں کے نام لات و منات اور عزیٰ عورتوں کے سے رکھتے تھے۔ اس واسطے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے سوا عورتوں کو پکارتے ہیں۔ اللہ کے سوا جس چیز کی کوئی پوجا کرتا ہے وہ شیطان کے بہکانے سے کرتا ہے اس لئے فرمایا کہ حقیقت میں یہ لوگ شیطان معلون کی پوجا کرتے ہیں۔ نصیب مفروض کے معنی ایک معین اور مقرر حصہ کے ہیں صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا یاجوج ماجوج کو ملا کر بنی آدم کی ہزار آدمی کی جماعت میں سے نو سو ننانوے شیطان کا حصہ قرار پاکر اس کے ساتھ جہنم میں جائیں گے 2۔ یہی گویا شیطان کا لوگوں کو گمراہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ملعون طرح طرح سے لوگوں کو بہکاتا ہے اور ان کو راہ راست سے روکتا ہے۔ شیطان کی ” توقعیں دلانے “ کا یہ مطلب ہے کہ دنیا کی امیدوں کو اس طرح طویل طویل کر کے اس کو تازہ عمر انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ انسان ان امیدوں کے پورا کرنے میں مصروف ہو کر عقبیٰ سے غافل رہتا ہے اور اسی حالت میں اپنی عمر گذار دیتا ہے آخر وہ سب آرزو دل میں دل کی دل ہی میں رہتی ہیں اور انسان دنیا سے اٹھ جاتا ہے۔ چناچہ صحیح بخاری، ترمذی، نسائی وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود ؓ اور انس بن مالک ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے آدمی کی عمر کا ایک چھوٹا خط اور اس کی طرح طرح کی امیدوں کا ایک بڑا خط کھینچ کر اس مطلب کو اچھی طرح سمجھایا ہے۔ اس لئے یہ روایتیں 1 آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہیں یہ ذکر تفصیل سورة مائدہ میں آئے گا۔ کہ مشرکین مکہ بتوں کے نام پر کچھ جانور چھوڑتے تھے اور نہ سنائی کے لئے ان جانروں کے کانوں میں شگاف دے دیا کرتے تھے دین ابراہمی میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے اس لئے شیطان کے بہکاوے کی باتوں میں سے یہ بھی ایک بات تھی جس کو اس نے اپنے اس آیت کے دعوے کے موافق مشرکین مکہ میں رسم کے طور پر پھیلا دیا تھا اللہ کی بنائی ہوئی صورت کے بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً بدن کی کھال کو گود کر اس میں سرمہ بھر لیا جاتا ہے۔ یا اصلی سر کے بالوں میں اور بال جوڑ کر اصلی بالوں کو لمبا کیا جائے اور اس طرح کی سب باتیں جن سے اصلی حالت کو بدل دیا جائے صحیحین اور سنن میں صحابہ کی ایک جماعت سے روایتیں ہیں 2 جن میں آنحضرت ﷺ نے ایسے کام کرنے والوں پر خدا کی لعنت اترنے کی خبر دی ہے خدا کی لعنت کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے مرد اس طرح کی عورتیں خدا کی رحمت سے دور رہیں گے اسی واسطے فرمایا کہ جس نے ایسے کام کر کے شیطان کی دوستی ادا کی وہ بڑے نقصان میں پڑگیا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص شیطان کے ساتھ جہنم میں جائے گا پھر فرمایا کہ شیطان کے سب وعدے دغا بازی کے ہیں کیونکہ شیطان کو کچھ اختیار نہیں کہ وہ کسی کی امید پوری کرسکے یا اپنا کوئی وعدہ وفاکرے اس واسطے کی دلائی ہوئی امیدوں یا اس کے وعدوں پر جو کوئی بھروسہ کرتا ہے وہ بڑے دھوکے میں ہے اور انجام اس دھوکے کا وہی ہے جو فرمایا کہ دھوکا دینے والے اور دھوکا کھانے والوں کا سب کا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں سے نکل بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں اب مشرکوں اور منافقوں کے مقابلہ میں ان مومنوں کا ذکر فرمایا جو خود شرک سے بیزار اور ان کے علم دنیا کے دکھاوے سے پاک و صاف ہیں یہ تو ان لوگوں کا دنیا کا حال ہوا۔ عقبیٰ کا ان کا انجام یہ فرمایا۔ کہ ان کو ہم داخل کریں گے ایسے باغوں میں جن میں طرح طرح کے میوے اور طرح طرح کی نہریں ہیں اور دنیا میں کسی مال دار آدمی کے پاس کوئی باغ ہوتا تو وہ باغ اور باغ والا دونوں چند روزہ ہیں۔ عقبیٰ میں باغ والوں کو کبھی فنا ہے نہ باغ کو کبھی خزاں وزوال اوپر شیطان کے وعدہ کو دہوکا فرما کر اس کے مقابلہ میں فرمایا کہ یہ وعدہ اللہ کا ہے جو دونوں جہان کا مالک ہے اس لئے دونوں جہاں میں جو کچھ جس کو وہ چاہے دے سکتا ہے ایسے صاحب قدرت صاحب اختیار مالک کے وعدہ میں سوائے سچ کے اور کسی وہم و گمان کا دخل کیسے ہوسکتا ہے۔ اسی واسطے فرمایا اللہ کے زیادہ سچاوعدہ کس کا ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کی معاذ بن جبل ؓ کی حدیث اوپر گذرچ کی ہے 1۔ کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں اس کے بعد بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب دوزخ سے نجات دے کر جنت میں داخل کرے 2۔ یہ حدیث اس آیت کی گویا تفسیر ہے۔
Top