Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اسکے سوا (اور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دیگا اور جس نے خدا کے ساتھ شریک بنایا وہ راستے سے دور جا پڑا
شرک اور اہل شرک کی مذمت اور رسوم جاہلیت کا ابطال۔ قال تعالی، ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ۔۔۔۔ الی۔۔۔ محیطا۔ یہ آخری آیت ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی۔ آیت۔ بھی طعمہ کے بارے میں نازل ہوئی جب اس نے دیکھا کہ اللہ نے اس کا پردہ فاش کردیا تو مرتد ہو کر چلا گیا ایک شخص کی دیوار میں نقب لگایا اتفاقا دیوار اس پر گر پڑی اور وہ مرگیا اب اس کے بعد اللہ شرک کی بابت ارشاد فرماتے ہیں کہ شرک تو بغیر توبہ کے کسی حال میں نہیں بخشا جاتا اور البتہ شرک اور کفر کے علاوہ اور گناہ بغیر توبہ کے بھی بخشے جاتے ہیں پس اگر طعمہ مرتد نہ ہوتا اور مشرکین کے ساتھ جاکرنہ ملتا تو ممکن تھا کہ چوری وغیرہ کا گناہ بغیر توبہ ہی کے اگر اللہ چاہتا تو معاف کردیتا لیکن وہ بدنصیب کافر اور مرتد ہوجانے کی وجہ سے اور پھر کفر وشرک پر مرجانے کی وجہ سے بالکلیہ خدا تعالیٰ کی عفو اور مغفرت سے محروم ہوگیا چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اللہ بلا توبہ نہیں بخشتا اس بات کو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایاجائے چہ جائیکہ سرے ہی سے اللہ کا انکار کردیا جائے اور کفر اور شرک سے نیچے اور کم درجے کے گناہ کو بلاتوبہ کے بھی جس کے لیے چاہیں معاف کردیں اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے وہ بلاشبہ گمراہ ہو کر ایسی گمراہی میں جاپڑا کہ جو ہدایت سے بہت ہی دور ہے اور ہدایت سے اتنا دور ہوگیا کہ قاب عفو ومغفرت نہ رہا بخلاف مسلمان کے کہ وہ کتناہی سخت گناہ گار کیوں نہ ہو اس کی گمراہی صرف اس کے اعمال تک ہے اور اس کا عقیدہ گمراہی اور خرابی سے محفوظ ہے۔ فائدہ) ۔ شروع سورت کی تمہید میں گزر چکا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اس سورت میں پانچ آیتیں مجھ کو دنیا ومافیھا سے زیادہ محبوب ہیں ان میں سے ایک آیت یہ ہے، یعنی ان اللہ لایغفر ان یشرک بہ۔ آیت۔ بظاہر وجہ یہ ہوگی کہ گناہ گاروں کے لیے سہارا ہے۔ نکتہ) ۔ یہ آیت اسی سورت میں پہلے بھی گذر چکی ہے مگر پہلی بار اہل کتاب کے سلسلہ میں گزری جو اہل علم تھے اور جان بوجھ کر خدا کے بیٹے اور شریک ٹھہراتے تھے اس لیے وہاں آیت کے ختم پر فقدافتری اثما عظیما۔ آیت۔ فرمایا کیوں کہ اہل کتاب جان بوجھ کر اللہ پر افتراء کرتے تھے اور اس جگہ اس آیت کو مشرکین عرب اور مرتدین کے سلسلہ میں ذکر فرمایا جو جاہل اور گمراہ تھے اس لیے یہاں آیت کے ختم پر فقد ضل ضلالا بعیدا۔ آیت۔ فرمایا کہ مشرکین عرب جہالت کی بناء پر گمراہی میں مبتلا ہیں باقی شرک اور کفر کی عدم مغفرت کی وجوہ باالتفصیل پہلی آیت کے ذیل میں گذر چکی ہیں۔ اب آئندہ آیات میں ان کی ضلال بعید کے وجوہ بیان فرماتے ہیں یہ مشرک خدا کو چھوڑ کر نہی پرستش کرتے مگر عورتوں کی یعنی بتوں کی جو ان کے خیال میں عورت ہیں اس لیے کہ اہل عرب اپنے بتوں کے نام مونث رکھتے تھے جیسے لات اور عزی اور منات۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ ہر قبیلہ کے بت کو اس قبیلہ کا انثی کہا کرتی تھے اور عورتوں کی طرح ان کو زیورات پہنایا کرتے تھے اور وہ لوگ اپنے بتوں کو خدا کی لڑکیاں بھی کہا کرتے تھے اور انثی کا اطلاق اس سبب سے کرتے تھے کہ وہ بےجان ہیں اور بےجان چیز کے لیے زبان عرب میں مونث کا لفظ استعمال کیا ہے بہر حال مقصود کہ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور جاپڑے ہیں کہ قادر توانا کو چھوڑ کر کمزور اور عاجزوں اور عورتوں کی پرستش کرتے ہیں کسی درجہ کے بےعقل اور ناسمجھ اور گمراہ ہیں اور درحقیقت نہیں پرستش کرتے مگر شیطان سرکش کی یعنی بتوں کو جو پوجتے ہیں تو صرف شیطان کے اغواء سے پوجتے ہیں تو گیا درحقیقت شیطان کو پوجتے ہیں جس پر اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کو اپنی رحمت خاصہ سے دور پھینک دیا ہے اور ظاہر ہے کہ عورتوں کی اور ملعون اور مردود کی پرستش بلاشبہ ضلال بعید ہے شیطان کی پرستش تو حماقت معنویہ ہے اور عورتوں کی پرستش حماقت حسیہ ہے اس لیے کہ عورتیں باعتبار جسم کے مردوں سے زیادہ کمزور ہیں فوج میں بھرتی ہونے کے قابل نہیں اس طرح اور اسی نسبت سے عورتیں عقل میں بھی مردوں سے بہت کمزور ہیں کامل العقل جنس کا ناقص العقل جن کی پرستش کرنا کیا یہ حسی اور ظاہری حماقت اور ضلال بعید نہیں اور جس وقت شیطان سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے بارگاہ خداوندی سے ملعون اور مردود ہوا تو اس وقت اس نے یہ کہا کہ میں تو غارت ہی ہوچکا مگر اولاد آدم کے غارت کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھانہ رکھوں گا اور اسے پروردگار میں تیرے بندوں میں ایک معین حصہ جو تیرے علم ازلی میں مقرر اور معین ہے ضرور لے کر رہوں گا یعنی اے پروردگار تیرے کچھ بندے تجھے چھوڑ کر میری راہ پر ہولیں گے تو اسی طرح تیرے بندوں میں میرا حصہ بھی ضرور ہوگا اور عقائد میں ان کو طریق ہدایت سے ضرور گمراہ کروں گا اور بہکاوں گا اور اعمال زندگی میں ان کو طرح طرح کی امیدوں اور آرزوں میں ضرور مبتلا کروں گا تاکہ بےدھڑک ہو کر وہ تیری معصیت کریں حتی کہ جزاء وسزا اور آخرت کا ان کو خیال بھی نہ آئے اور میں انہیں ضرور اعمال کفریہ ورسوم شرکیہ کا حکم دوں گا کہ وہ میرے حکم سے بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کاٹیں گے مشرکین عرب کا یہ دستور تھا کہ جب اونٹنی پانچ بچے جن لیتی اور پانچواں بچہ نر ہوتا تو اس کے کان چیر کو بتوں کے نام پر اس کو چھوڑ دیتے نہ اس کا دودھ پیتے اور نہ اس پر سوار ہوتے اور نہ اس کی اون سے منتفع ہوتے اور یہ سمجھتے کہ یہ فعل خدا کے تقرب کا ذریعہ ہے اس آیت میں اسی رسم کی طرف اشارہ ہے اور میں ان کو یہ حکم بھی ضرور دوں گا جس سے وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑیں گے جیسے داڑھی منڈوانا اور بتوں کے نام کی سر پر چوٹی رکھنا اور عورتوں کا اپنی کھال کو گدوانا اور اپنے بالوں میں دوسرے بال وصل کرانا وغیرہ وغیرہ۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ مردوں کا سیاہ خضاب کرنا اور مردوں کا عورتوں کے مشابہ بننا اور عورتوں کا مردوں کا مشابہ اور ہم لباس بننا وہ بھی تغیر خلق اللہ میں داخل ہے خلاصہ مطلب یہ کہ شیطان تمہارا ازلی دشمن اور حاسد ہے اور وہ اپنی دشمنی کو صاف ظاہر بھی کرچکا ہے اور جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا تھا تو اس وقت یہ کہہ کر آیا تھا کہ اے خدا میں تیرے بندوں کو ضرور گمراہ کروں گا اور تو اس واضح دشمنی اور عداوت کے بعد کیوں اس کی پیروی کرتے ہو اور اس کے بہکانے پر کیوں عمل کرتے اور کیا لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جو خدا کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے اور اس کے مشوروں پر چلے تو وہ صریح نقصان میں جا پڑا کہ جنت کو فروخت کرکے جہنم خرید لی شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور طرح طرح کی امیدیں ان کو دلاتا ہے شیطان کے پاس سوائے زبانی وعدوں اور خیالی آرزوں کے کیا رکھا ہے اور نہیں وعدہ کرتا شیطان ان سے مگر خالص دھوکے اور فریب کا یعنی شیطان لوگوں سے وعدے کرتا ہے کہ دنیا کی لذتیں ہمیشہ ان کو نصیب ہوتی رہیں گی اور حساب و کتاب سب ڈھکو سلہ ہے اور جو شخص حساب و کتاب اور قیامت کے انکار پر آمادہ نہیں ہوتا اسے یہ آرزو دلاتا ہے کہ ابھی زندگی بہت پڑی ہے جلدی کیا ہے اخیر وقت میں توبہ کرلینا جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے، ناصحاتوبہ کی جلدی کیا ہے یہ بھی کرلیں گے جو فرصت ہوگی۔ اللہ فرماتے ہیں خوب سمجھ لو کہ شیطان کے وعدے سب جھوٹے ہیں اور ایسے لوگ جنہوں نے شیطان کو اپنا رفیق بنایا ہے ان سب کاٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ کبھی اس دوزخ سے مفر اور مخلصی نہ پائیں گے یعنی اس سے بھاگ کر کبھی رہائی نہ پاسکیں گے اور برخلاف ان کے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے عنقریب ہم ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے کہ ان کے درختوں کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور ان باغات میں ان کا داخل ہونا عارضی نہ ہوگا بلکہ وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ان سے اس پکا وعدہ کیا ہے اور اللہ سے بات میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے اور جب تم ویہ معلوم ہوچکا تو تم کو چاہے کہ اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرکے عمل کرو شیطان کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کرکے دھوکہ میں نہ آؤ اس لیے کہ آخرت کا ثواب اے مسلمانوں نہ تمہاری آرزوں پر ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزؤں پر ہے خالی آرزوں اور تمناؤ پر کام نہیں چلتا۔ جب تک ایمان اور عمل صالح نہ ہو اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ اہل کتاب اور اہل اسلام میں گفتگو ہوئی اور اہل کتاب نے کہا ہماری کتاب مقدم ہے اور ہمارے نبی تمہارے نبی سے مقدم ہیں اور مسلمانوں نے کہا ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتب تمام کتابوں کی ناسخ ہے لہذا ہم تم سے بہتر ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ قرب خداوندی اور اخروی کامیابی محض تمناؤں سے حاصل نہیں ہوسکتی بلاایمان اور بلا عمل صالح عقبی کی راحت کی توقع رکھنا سراسر نادانی ہے قانون خداوندی یہ ہے کہ جو کام برا کرے گا سزاپائے گا اور آخرت کے دن وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنے لیے نہ حمایتی اور مددگار پائے گا جو اس کو خدا کے عذاب سے بچا سکے اور جو شخص نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مومن ہو یعنی مسلمان ہو پس یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور تل برابر بھی ظلم نہ کیے جائیں گے اور مومن کی قید اس لیے لگائی کہ بغیر ایمان اور اسلام کے کسی عمل صالح کا اعتبار نہیں مطلب یہ ہے عمل صالح کا اہتمام کرو محض تمنا اور نرمی آرزو کافی نہیں اب اہل کتاب کے اس خیال کی تردید فرماتے ہیں کہ ان کا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے چناچہ فرماتے ہیں اور اہل کتاب کا یہ خیال کہ ان کا دین مسلمانوں کے دین سے بہتر ہے محض غلط ہے کیونکہ باعتبار دین کے اس شخص سے کون اچھا ہوسکتا ہے جو اپنے چہرہ یعنی اپنی ذات کو خدا کے سپرد کردے یعنی سراپا خدا کا مطیع اور فرمانبردار بن گیا ہو درآنحالیکہ وہ مخلص ہو اور ملت ابراہیمی کا پیرو ہو جو کہ حنیف تھے یعنی ماسوی اللہ سے یکسو تھے یعنی دین اسلام سے بہتر اور کوئی دین نہیں کیونکہ مسلمانوں نے اپنے آپ کو خدا کے حوالہ اور سپرد کردیا ہے جو حکم وہ دیتا ہے وہی کرتے ہیں اور مخلص اور نیکوکاروں ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر ہیں جو اللہ کے خاص الخاص بندہ تھے اور جن کو اللہ نے اپنا جانی دوست بنایا تھا اور جو بڑے موحد تھے اور سب سے الگ ہو کر ایک طرف یعنی ایک خدا کی طرف ہو رہے تھے اور تمام حنفاء اور موحدین کے مقتداء اور پیشوا تھے اور انبیاء ومرسلین کے جد امجد تھے تو ان کی راہ سب راہوں سے زیادہ بہتر ہوگی اور دین اسلام ہی حضرت ابراہیم کا مذہب تھا تو جب مسلمانوں کی یہ کیفیت ہے تو پھر ان کے دین سے بڑھ کر کس کا دین متبع ہوں گے یعنی حنیف اور موحد ہوں گے اور کسی کو خدا کا شریک اور بیٹا نہ سمجھتے ہوں اور اس وجہ سے کہ ابراہیم سب کو چھوڑ کر ایک خدا کے ہوگئے تھے اللہ نے ابراہیم کو اپنا خالص دوست بنالیا تھا جن کے خلال قلب میں اللہ کی محبت اور عظمت ایسی سرایت کرچکی تھی کہ کسی غیر کی اس میں گنجائش باقی نہ رہی تھی اور پورے طور پر وہ اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہوچکے تھے پس مسلمان اسی ابراہیم خلیل اللہ کے طریقہ پر ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ سب پر مقدم ہیں حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو بصیرت کے ساتھ غیر اللہ کو چھوڑ کر بالکلیہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اور خلیل اللہ وہ شخص ہے جو اللہ کی محبت میں اس درجہ فنا ہوچکا ہو کہ طبعی اور فطری طور پر اس کا ارادہ اور اختیار اور رغبت اللہ کے حکم کے تابع ہوجائے اور خلیل اللہ ہونا بارگاہ اللہ پر میں تقرب اعلی ترین مقام ہے اور یہ مقام ہمارے نبی اکرم ﷺ کو بھی حاصل تھا جیسا کہ صحیحین میں ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے مرض الوفات میں جو آخری خطبہ دیا تھا اس میں یہ فرمایا، اما بعد اے لوگو ! اگر میں کسی کو اہل زمین سے اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر بن ابی قحافہ کو اپنا خلیل بناتا لیکن تمہارا صاحب خطا (یعنی ذات قدسی) خلیل اللہ ہے یعنی اللہ کا خلیل ہے۔ اور جندب بن عبداللہ البجلی اور عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، تحقیق اللہ نے مجھ کو اپنا خلیل بنایا ہے جس طرح ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اس مضمون کی روایتیں تفسیر ابن کثیر میں مذکور ہیں اور نبی ﷺ خلیل اللہ ہونے کے علاوہ حبیب اللہ بھی تھے جیسا کہ ترمذی کی ایک روایت میں ہے انا حبیب اللہ ولافخر، غرض یہ کہ ہمارے نبی ﷺ کو مقام خلت اور مقام محبت دونوں حاصل تھے بعض محققین کا قول ہے کہ محبت کا دائرہ خلت کے دائرہ سے زیادہ وسیع ہے تفصیل کے لیے روح المعانی ص 140 ج 5 کو دیکھیے۔ خلاصہ کلام یہ کہ حضرت ابراہیم کی فضیلت اور بزرگی اور ان کا ماتقدم زمانی اور رتبی تمام ملل اور امم میں مسلم ہے کہ وہ خلیل اور حنیف تھے یعنی فانی فی اللہ اور باقی بااللہ تھے اور دین اسلام اپنے اندر ملت ابراہیمی کو مع شئی زائد سموئے ہوئے ہے۔ دین اسلام ملت ابراہیمی کے علاوہ اور بہت سے علوم اور احکام پر مشتمل ہے اور توحید و تفرید اور انقیاد ظاہری وباطنی اور اخلاصی کامل اور فناء فی اللہ اور بقاء بااللہ کی تعلیم وتلقین کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کون سا دین ہوسکتا ہے اور یہودیت اور نصرانیت میں سوائے گمراہانہ عقیدہ ابنیت وکفارہ کے اور سوائے جاہلانہ آرزوں کے اور کیا رکھا ہے پس عیسائیوں کا یہ گمان کہ تمام گناہ حضرت مسیح اٹھا کرلے گئے اور اب ہم شریعت اور حلال اور حرام کی قید سے آزاد ہیں اور اسی طرح یہودیوں کا یہ گمان کہ ہم پیغمبروں کی اولاد ہیں اور ہم خدا کے دوست ہیں ہمیں دوزخ میں جانا نہیں پڑے گا اور اگر جائیں گے بھی تو تب تھوڑے دنوں کے لیے اور پھر ہمارے باپ دادا جو پیغمبر تھے وہ ہم کو چھڑا لائیں گے یہ سب یہود ونصاری کی آرزوئیں ہیں جن سے کچھ کام نہیں چلتا اطاعت کے بغیر نجات ممکن نہیں ان آیات سے فرقہ مرحبہ کا بھی رد ہوگیا جو یہ کہتے ہیں کہ فقط ایمان نجات کے لیے کافی ہے اور اعمال صالحہ ضروری نہیں حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ ایمان صرف آرزو کا نام نہیں تاوقتیکہ دل میں اعتقاد نہ ہو اور عمل اس کی تصدیق نہ کرے۔ پس ثابت ہوا کہ یہود ونصاری کا دعوی باطل ہے اور دین اسلام سے بہتر کوئی دین نہیں اور دین اسلام کے سوا کوئی دین مقبول نہیں اور مسلمانوں سے زیادہ کوئی گروہ حضرت ابراہیم سے قریب نہیں، کماقال تعالیٰ ان اولی الناس۔۔۔۔۔ المومنین۔ آیت۔ اور یہود اور نصاری اخلاص اور توحید اور اسلام اور احسان سے جو حضرت ابراہیم کا طریقہ یہ تھا کہ کوسوں دور ہیں پس ان کا یہ دعوی کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں بالکل غلط ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے یعنی جب وہ آسمان اور زمین کی سب چیزوں کا مالک ہے تو ابراہم کا بھی وہی مالک اور خدا ہے اور ابراہیم اس کے بندہ ہیں اس مالک مطلق نے اپنے اختیار سے ابراہیم کو اپنا خلیل اور مقرب بنایا مقام خلت سے ان کو شرف اور عزت حاصل ہوئی مگر دائرہ عبودیت اور مملوکیت سے باہر نہیں ہوئے اور ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اپنی قدرت اور علم و حکمت سے احاطہ کرنے والا کوئی شی اس کے احاطہ قدرت اور قہر سے باہر نہیں پس وہی ذات اس قابل ہے کہ خالص اس کی بندگی کی جائے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کیا جائے اور یہود اور نصاری اور مشرکین عرب سب شرک میں مبتلا ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کے اعمال کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے پس قیامت کے دن ضرور ان کے اعمال کی ان کو سزا دے گا۔
Top