Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 116
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يَغْفِرُ : نہیں بخشتا اَنْ يُّشْرَكَ : کہ شریک ٹھہرایا جائے بِهٖ : اس کا وَيَغْفِرُ : اور بخشے گا مَا : جو دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہے وَمَنْ : اور جس يُّشْرِكْ : شریک ٹھہرایا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَقَدْ ضَلَّ : سو گمراہ ہوا ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
بیشک اللہ اس بات کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں جس کے لیے اسے منظور ہوگا بخش دے گا، اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے تو وہ دور کی بڑی گمراہی میں جا پڑا۔
مشرکین کی بخشش نہیں وہ دور کی گمراہی میں ہیں : آخر میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ ) (الآیۃ) یہ آیت شریفہ چند رکوع پہلے سورة نساء ہی میں گزر چکی ہے البتہ آخر کے الفاظ میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ آیت کی تفسیر اور تشریح ہم وہاں لکھ چکے ہیں۔ یہاں اس مناسبت سے سابقہ مضمون کا اعادہ فرمایا ہے کہ چوری کرنے والا منافق ظاہراً بھی کافر ہوگیا اور مشرکوں میں جا کر مل گیا تھا۔ فائدہ : صاحب روح المعانی صفحہ 148: ج 5 فرماتے ہیں کہ چند رکوع پہلے اس آیت کے ختم پر (فَقَدِ افْتَرٰیٓ اِثْماً عَظِیْماً ) فرمایا اور یہاں (فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا) فرمایا۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ وہاں یہودیوں کے بارے میں بات ہو رہی تھی انہوں نے جو کچھ اپنی کتاب میں پڑھا تھا اس کی وجہ سے اس بات میں انہیں بالکل شک نہیں تھا کہ سیدنا محمد ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں اور ان کی شریعت کا اتباع فرض ہے اور وہ جو کچھ ایمان کی دعوت دیتے ہیں اس کا ماننا لازم ہے اس سب کے باوجود انہوں نے شرک کی راہ اختیار کی اور کفر پر جمے رہے لہٰذا ان کا یہ عمل افتراء ہوگا اور اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے رہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم جس دین پر ہیں وہی اللہ تعالیٰ کا مجبوب دین ہے اور یہاں خالص مشرکین سے بات ہو رہی ہے جو اس سے پہلے نہ کتاب کو جانتے تھے نہ وحی سے واقف تھے ان کے پاس رسول اللہ ﷺ کے علاوہ ہدایت اور دین حق لے کر کوئی شخص نہیں آیا تھا۔ لیکن حجت کے ساتھ حق واضح ہونے کے بعد اپنی سابقہ گمراہی پر ہی برقرار رہے اور شرک ہی کو اختیار کیے رہے اس لیے ان کے حق میں (فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا) فرمایا اور یہ بتایا کہ یہ لوگ گمراہ تو تھے ہی اور زیادہ گمراہ ہوتے چلے گئے اور دور کی گمراہی میں جا پڑے۔ ملت ابراہیمیہ میں جو توحید کا حکم تھا یہ اس کو پشت پیچھے ڈال کر مشرک ہوگئے تھے اور سمجھانے پر بھی شرک سے باز نہ آئے گمراہی میں ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔
Top