Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 46
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ : آگ يُعْرَضُوْنَ : وہ حاضر کئے جاتے ہیں عَلَيْهَا : اس پر غُدُوًّا : صبح وَّعَشِيًّا ۚ : اور شام وَيَوْمَ : اور جس دن تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ : قائم ہوگی قیامت اَدْخِلُوْٓا : داخل کرو اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے اَشَدَّ : شدید ترین الْعَذَابِ : عذاب
(یعنی) آتش (جہنم) کہ صبح وشام اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو
46۔ عام مفسرین بلکہ تمام اہل سنت نے اس آیت سے عذاب قبر کو ثابت کیا ہے لیکن اس میں ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ آیت مکی ہے اور جب اس آیت مکی سے عذاب قبر کا ثابت ہونا قرار دیا گیا تو ہجرت کے بعد مدینہ میں آنحضرت ﷺ نے بعضی روایتوں میں عذاب قبر سے انکار کیوں فرمایا ہے چناچہ مسند 2 ؎ امام احمد میں حضرت عائشہ کی صحیح حدیث جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت یہودیہ حضرت عائشہ کے پاس آیا کرتی تھی اور حضرت عائشہ اس یہودیہ کو کبھی کچھ دیا کرتی تھیں تو وہ یہودیہ یہ دعا کرتی کہ خدا تعالیٰ تم کو عذاب قبر سے بچائے ایک دن حضرت عائشہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ کیا قبر میں بھی لوگوں پر کچھ عذاب ہوگا آنحضرت نے فرمایا کہ نہیں کون کہتا ہے حضرت عائشہ نے اس یہودیہ کے دعا دینے کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہود نے اس طرح کی جھوٹی باتیں بہت سی دین میں بنا لی ہیں سوا قیامت کے دن کے اور کوئی عذاب نہیں ہے جواب اس اعتراض کا حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر نے یہ دیا ہے کہ اس آیت سے کافروں کا عذاب قبر ثابت ہوا تھا گناہ گار اہل کلمہ کا عذاب قبر مدینہ میں آنحضرت ﷺ کی حیات کے آخری وقت میں وحی خفی کے ذریعہ سے پھر ثابت ہوا ہے۔ چناچہ صحیح 3 ؎ مسلم میں حضرت عائشہ کی جو روایت ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب عذاب قبر کے انکار کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عائشہ سے عذاب قبر کی تصدیق کا ذکر کیا تو اس ذکر میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ گناہ گار اہل کلمہ کے عذاب قبر کا حال مجھ کو اب وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے اس حدیث سے حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر کے جواب کی پوری تائید ہوتی ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اس یہودیہ کے حضرت عائشہ کو دعا دینے کے وقت تک اہل کلمہ کا عذاب قبر ثابت نہیں ہوا تھا اس واسطے آنحضرت ﷺ نے اس یہودیہ کے قول کا انکار فرمایا اس جواب کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ صحیح حدیثوں کے موافق یہ یہودیہ کا قصہ اس وقت گزرا جب آنحضرت کے زمانہ میں سورج گہن ہوا تھا چناچہ یہودیہ کی اس بات کا جواب دیتے ہی آپ سورج گہن کی نماز کو تشریف لے گئے اور پھر چند روز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم آپ نے دیا اور یہ بھی صحیح حدیثوں میں ہے کہ سنہ دس ہجری میں جب حضرت ﷺ کے صاحبزادہ ابراہیم کا انتقال ہوا یہ سورج گہن اس وقت ہوا تھا غرض ان صحیح حدیثوں سے وہی مطلب ثابت ہوتا ہے کہ سنہ دس ہجری میں جو آخری زمانہ آنحضرت ﷺ کی حیات کا ہے پہلے آپ نے یہودیہ کے قول کا انکار فرمایا اور پھر یہ فرمایا کہ مجھ کو وحی کے ذریعہ سے بات معلوم ہوئی ہے کہ گناہ گار اہل کلمہ پر بھی عذاب قبر ہوگا اس لئے تم لوگ عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو حاصل یہ ہے کہ فرعون جیسے کافروں کا عذاب قبر قرآن سے ثابت ہوا ہے اور گناہ گار اہل کلمہ کا عذاب قبر حدیث سے ایک اختلاف علما میں یہاں اور ہے وہ یہ ہے کہ عذاب قبر فقط روح پر ہوگا یا فقط جسم پر یا روح جسم دونوں پر بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ تم لوگوں نے خدا کا وعدہ سچا پایا اس سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کے وعدہ کے موافق اس وقت ان لوگوں پر عذاب ہو رہا تھا لیکن وہ لاشیں سب صحابہ کے سامنے پڑی تھیں اور روح کا کوئی اثر ان لاشوں میں نہیں تھا اسی واسطے صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ حضرت آپ مرے ہوئے مردوں سے باتیں کرتے ہیں غرض اس قصہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقط جسم میں خدا تعالیٰ عذاب کا درد بھگتنے کی ایک قوت پیدا دیتا ہے اور عذاب فقط جسم پر ہی ہوتا ہے روح کو اس سے کچھ تعلق نہیں ابن حزم اور ابن جیرہ کا مذہب یہ ہے کہ عذاب فقط روح پر ہوتا ہے جمہور اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر جسم اور روح دونوں پر ہوتا ہے صحیح حدیثوں سے منکر نکیر کے سوال و جواب کے وقت روح کا مردہ کے جسم میں پھر آنا پایا جاتا ہے اور اس وقت کے عذاب کا ذکر جو کچھ حدیث میں آیا ہے مثلاً قبر کا بھیچنا دونوں کانوں کے بیچ میں فرشتہ کا گرز مارنا اس سے بھی روح اور جسم دونوں پر عذاب قبر کا ہونا معلوم ہوتا ہے بعضے مفسروں کو یہاں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ منکر نکیر کے سوال کے وقت تو مردہ کو تازہ دفن کیا جاتا ہے جس کا جسم موجود ہوتا ہے اس موجودہ جسم سے روح کا تعلق سمجھ میں آتا ہے لیکن جن مرے ہوئے لوگوں کو دفن کرکے عرصہ گزر گیا جن کی ہڈیاں تک خاک ہوگئیں ان کی قبروں میں تو سوا خاک کے اور کچھ نہیں نظر آیا ایسی حالت میں روح کا تعلق کون سے جسم کے ساتھ ہوتا ہے اس کا جواب اور مفسروں نے یہ دیا ہے کہ دنیا کا انتظام چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان سے عذاب قبر کا حال اس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ معمولی فرشتوں کو بھی اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے چناچہ اس کا ذکر سورة الانعام میں گزر چکا ہے اب عذاب قبر کے خوفناک فرشتوں کو عذاب کرتے ہوئے جو کوئی دیکھتا وہ کسی طرح زندہ نہیں رہ سکتا تھا جس سے دنیا کے انتظام میں خلل پڑجاتا۔ صحیح بخاری 1 ؎ میں انس ؓ بن مالک سے اور صحیح سند سے مسند امام 2 ؎ احمد اور ابودائود 3 ؎ میں براء بن العازب سے جو روایتیں ہیں ان میں یہ ذکر تفصیل سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب قبر کا حال انسان سے پوشیدہ رکھا ہے اب یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے چھوٹے سے ٹکڑے سے روح کا تعلق کرایا جاتا ہو اور عذاب قبر کے پوشیدہ رکھے جانے کی حکمت سے وہ ہڈی کا ٹکڑا انسان کو نظر نہ آتا ہو یہ ریڑھ کی ہڈی کا ٹکڑا وہی ہے جس کا ذکر صحیح بخاری 4 ؎ اور مسلم کی ابوہریرہ کی روایت میں ہے کہ اس کو مٹی نہیں کھاتی اور اسی سے قیامت کے دن مردہ کا سارا جسم تیار ہوجائے گا اس سے یہ بات بھی نکل سکتی ہے کہ جس طرح ہڈی کے ٹکڑے میں تمام جسم کے تیار ہوجانے کا مادہ رکھا گیا ہے اسی طرح روح کے تعلق کے بعد اس ہڈی کے ٹکڑے پر کا عذاب قبر تمام جسم پر کے عذاب کا کام دے تو کیا یہ قدرت الٰہی سے باہر ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا کی آنکھوں میں آخرت کی چیزوں کے دیکھنے کی طاقت نہیں ہے اس واسطے یہ ضروری نہیں ہے کہ مثلاً عذاب قبر جنت دوزخ یا آخرت کی اور چیزیں دنیا میں انسان کو نظر آجائیں گی اگر ایسا ہوتا تو دنیا کی آنکھوں سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ضرور ہوجاتا۔ صحیح بخاری 1 ؎ ترمذی نسائی وغیرہ میں عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جب کوئی ایسا شخص مرجاتا ہے جو قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے کے قابل ٹھہرا ہے تو اس کو صبح شام اس کا جنت کا ٹھکانا اور جو دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پایا اس کو صبح شام اس کا دوزخ کا ٹھکانہ دکھا کر فرشتے یہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے کے لئے ہر ایک شخص کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ حدیث بھی یہودیہ کے قصہ کے بعد کی ہے کیونکہ اس میں فرعون جیسے کافروں اور اہل کلمہ گناہ گاروں سب کو یہ جتایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے ہر قابل دوزخ شخص پر علاوہ اور عذاب قبر کے یہ عذاب قبر بھی ہوگا کہ صبح و شام اس کا دوزخ کا ٹھکانہ اسے دکھایا جائے گا صحیح 2 ؎ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کی نجاست سے نہ بچنے اور غیبت سے اکثر عذاب قبر ہوگا اور یہ بھی صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص ہر رات کو سورة الملک پڑھے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ 3 ؎ رہے گا آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ قیامت سے پہلے تو فرعون اور اسکے ساتھیوں کو ان کا دوزخ کا ٹھکانا صبح و شام دکھایا جائے گا اور قیامت کے دن ان کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اس ٹھکانے میں جا کر ہمیشہ رہیں۔ براء بن العازب کی جس حدیث کا حوالہ اوپر گزرا اس میں یہ بھی ہے کہ دوزخ کے قابل لوگ قیامت سے پہلے قبر میں ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ صبح شام دوزخ کا ٹھکانا دیکھ کر یہ لوگ قیامت کے دن اس ٹھکانے میں جانے سے ایسے خوف زدہ ہیں کہ عذاب قبر کو اس کے آگے غنیمت جانتے ہیں اور قیامت کے قائم نہ ہونے کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ (2 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 81 ج 4۔ ) (3 ؎ صحیح مسم باب استحباب التعوذ من عذاب القبر۔ ص 217 ج 1۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری ماجاء فی عذاب القبر۔ ص 184 ج 1۔ ) (2 ؎ الترغیب والترہیب باب ماجاء فی عذاب القبر و نعیمہ ص 687۔ ) (3 ؎ ابودائود باب فی المسالۃ فی القبر و عذاب القبر ص۔ ) (4 ؎ صحیح مسلم باب مابین النفختین ص 406 ج 2۔ ) (1 ؎ صحیح بخاری باب البیت یعرض علیہ مقعدہ بالغدوۃ والعشی ص 185 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری عذاب القبر من الغیبۃ والبول۔ ص 184 ج 1۔ ) (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 395 ج 4۔ )
Top