Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 40
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ
: آگ
يُعْرَضُوْنَ
: وہ حاضر کئے جاتے ہیں
عَلَيْهَا
: اس پر
غُدُوًّا
: صبح
وَّعَشِيًّا ۚ
: اور شام
وَيَوْمَ
: اور جس دن
تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ
: قائم ہوگی قیامت
اَدْخِلُوْٓا
: داخل کرو
اٰلَ فِرْعَوْنَ
: فرعون والے
اَشَدَّ
: شدید ترین
الْعَذَابِ
: عذاب
(یعنی) آتش (جہنم) کہ صبح وشام اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو
بعد ازذکر عذاب دنیوی وبیان عذاب برزخ وآخرت ذلت و خواری فرعونیاں : قال اللہ تعالیٰ : (آیت ) ” النار یعرضون علیھا ...... الی ....... الا فی ضلل “۔ (ربط) گزشتہ آیات میں آل فرعون کے مرد مومن کا ناصحانہ خطاب کا بیان تھا کہ اس نے کیسے مؤثر وبلیغ اور مدلل انداز سے فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کے ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس سے آگے بڑھ کر ان کو حق کی دعوت دی اور اللہ رب العزت کی الوہیت ووحدانیت کے دلائل قائم کرتے ہوئے ایمان لانے پر آمادہ کرنا چاہا اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر مرتب ہونے والے نتائج سے آگاہ کیا، اب ان آیات میں جو عذاب خداوندی ان پر دنیا میں آیا اور جو برزخ اور آخرت میں ہوگا اس کا ذکر فرمایا جارہا ہے، فرمایا۔ (آیت ) ” النار یعرضون علیھا “۔ الخ، دوزخ کی آگ پر ان فرعونیوں کو پیش کیا جاتا رہے گا، صبح وشام، اور جب قیامت قائم ہوگی تو کہا جائے گا فرشتوں سے داخل کردو فرعونیوں کو سخت عذاب میں جو عالم برزخ کے عذاب سے بہت زائد سخت اور ہولناک ہوگا کیونکہ برزخ میں تو آگ کا صرف معاینہ اور قرب ہی ہوتا تھا، علاوہ ازیں برزخی آگ سے یقیناً جہنم کی آگ زائد شدید ہوگی تو برزخ کے عذاب سے جہنم کا عذاب نہایت سخت ہوگا اور اس سے بڑھ کر ایک مزید عذاب وکلفت کی چیز ہوگی جب کہ کفار دوزخ میں ایکد وسرے سے جھگڑتے ہوں گے تو نیچے درجے کے لوگ ان لوگوں سے کہتے ہوں گے جو بڑے تھے، اور ان کے مقتداء و پیشوا بنے ہوئے تھے ہم تو دنیا میں تمہارے تابع تھے اور تمہارے ہی ورغلانے سے ہم نے کفر کیا تھا تو کیا اس وقت تم ہم سے عذاب نار کا کچھ حصہ ہٹا سکتے ہو، وہ بڑے کہیں گے ہم سب ہی دوزخ میں پڑے ہوئے ہیں، اب ہم تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں جب کہ ہم بھی تمہاری طرح اسی عذاب میں مبتلا ہیں، اللہ تو بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا، اور اس صورت حال میں کہ تابعین اپنے متبوعین سے مایوس ہوچکے ہوں گے، اور متبوعین بھی اپنے کو بےبس پا رہے ہوں گے تو یہ سب جو جہنم میں ہوں گے جہنم کے نگران فرشتوں سے کہیں گے پکارو اپنے پروردگار کو کہ وہ ہم سے عذاب میں سے کسی ایک دن ہی کمی کردے تو ہم ایک دن کے عذاب کی تخفیف کو غنیمت سمجھیں گے کہ چلو ذرا ایک دن ہی کچھ سکون کا سانس لینا نصیب ہوجائے، یہ فرشتے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہارے رسول دلائل ومعجزات لے کر نہیں آئے تھے جس سے تم بخوبی حق وہدایت سمجھ سکتے تھے کہیں گے بیشک وہ سب کچھ لے کر آئے تھے لیکن یہ ہماری بدنصیبی کہ ہم نے ان کی بات نہ مانی (جیسے کہ ارشاد ہے (آیت ) ” بلی قد جآء نا نذیر فکذبنا “۔ ) اس پر فرشتے بولیں گے پھر اب ہم کچھ نہیں کرسکتے اور نہ تمہارے واسطے کوئی دعا والتجا ہوسکتی ہے اور کافروں کی دعا بس بےاثر ہی ہو کر رہے گی اس لیے کہ اس دعاء۔ 1 حاشیہ : (اس دعا کی قید اس وجہ سے ظاہر کی گئی کہ یہ دعا۔ نجات یا تخفیف عذاب کی ہوگی اور قرآن کریم نے اللہ رب العزت کا فیصلہ واضح کردیا کہ (آیت ) ” لایخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون “۔ رہا دنیا کا معاملہ تو ہوسکتا ہے کہ کافر کی بعض دعائیں اللہ تعالیٰ اپنی شان ربوبیت کے لحاظ سے پوری فرما دے جیسے کہ رب العالمین ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ سب انسانوں اور جانوروں کی حاجتیں پوری فرماتا ہے تو اسی درجہ میں دنیا میں کافر کی دعا جو اس کی حوائج بشریہ سے متعلق ہو پوری ہوسکتی ہے لیکن یہاں کی دعا محض آخرت کے عذاب کی تخفیف یا نجات کی تھی تو ظاہر ہے کہ وہ کیونکر پوری ہوسکتی تھی تو بےاثر اور ضیاع کا تعلق امر آخرت میں ہوا، تو اس وجہ سے لفظ اس کا اضافہ کیا گیا، 12) اس دعاء کا اثر اور اس کی قبولیت تو ایمان اور اطاعت پر موقوف ہے۔ عالم برزخ اور وہاں کا عذاب : عالم برزخ اور وہاں کا ثواب و عذاب اور راحت و تکلیف امر قطعی ہے اور جس طرح آخرت پر اور آخرت کے ثواب و عقاب پر ایمان ضروری ہے، اسی طرح برزخ کے ثواب و عقاب پر بھی ایمان ویقین ضروری ہے اور ایمان بالآخرۃ جو دین کی اصل بنیاد ہے وہ احوال برزخ پر ایمان لائے بغیر ممکن نہیں ” برزخ “ دنیا اور آخرت کے درمیانی عالم کا نام ہے جس جگہ بھی اور جس حال میں بھی مردہ مرنے کے بعد سے لے کر یوم البعث تک رہے گا وہی برزخ ہے خواہ مردہ قبر میں دفنا دیا جائے یا سمندر میں ڈبو دیا جائے یا آگ میں جلادیا جائے یا کوئی جانور یا درندہ اس کو کھالے، غرض اس جملہ احوال کا عنوان برزخ ہے اور اسی کو اصطلاحی طور پر قبر کہا جاتا ہے، اگرچہ قبر لفظی طور سے زمین کے گڑھے کو کہتے ہیں مگر شریعت کی نظر میں یہ جملہ احوال عالم قبر ہی شمار کیے جاتے ہیں، اس عالم برزخ کا ثبوت کتاب اللہ کی نص صریح ہے (آیت ) ” ومن ورآءھم برزخ الی یوم یبعثون “۔ میں موجود ہے، اسی لیے حضرات متکلمین عقائد کے سلسلے میں عذاب قبر کا ایک مستقل باب رکھتے ہیں۔ اس عالم کی وسعت کا ہم کوئی اندازہ نہیں کرسکتے، بعض عارفین کا قول ہے کہ عالم دنیا اس جہاں برزخ کے سامنے ایسا ہے جیسے ایک ماں کا پیٹ تمام عالم کے سامنے جس طرح حالت نوم موت وحیات کے درمیان ایک حالت ہے، ایسے ہی اس عالم برزخ کو دنیا اور آخرت کے مابین عالم سمجھ لیا جائے، انسان کے مرجانے کے بعد دنیوی حیات کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اور روح عالم برزخ میں پہنچ جاتی ہے، مگر اپنے بدن کے ساتھ پھر بھی ایک گونہ گو تعلق باقی رہتا ہے، اور محل دفن سے بھی علاقہ رہتا ہے، قبر میں میت کو جو حیات حاصل ہوتی ہے وہ دنیا کی حیات معہودہ کی طرح نہیں بلکہ وہ دوسری نوع کی ہوئی ہے جس کا ان حواس سے ادراک نہیں ہوتا کیونکہ یہ بدنی حواس تو بدن کی موت سے ختم ہوچکے ہیں ان ادراکات کو اس طرح سمجھ لیاجائے جیسے حالت نوم میں انسان جو کچھ دیکھتا سنتا ہے وہ ان آنکھوں اور ان کانوں سے نہیں دیکھتا سنتا وہ تو حالت نوم میں معطل ہیں بلکہ ان کے علاوہ دوسرے باطنی مدرکات ہیں جن کے ذریعہ یہ ادراک حاصل ہوتا ہے، بہرکیف مرنے کے بعد انسان جب اس جہان میں پہنچ جاتا ہے تو اس کو اپنے ایمان وکفر اور طاعت ومعصیت کی صورتیں عالم مثال میں نظر آتی ہیں۔ شیخ محی الدین ابن العربی (رح) فتوحات میں فرماتے ہیں دنیا میں جو چیزیں معانی اور اوصاف ہیں عالم آخرت یا عالم برزخ میں وہ حقائق موجودہ کی شکل میں موجود نظر آئیں گی ،۔ اور ہر شخص ان کا مشاہدہ کرتا ہوگا، حدیث میں آتا ہے کہ مومن شخص قبر میں جب نکیرین کے سوال و جواب سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کے سامنے ایک نہایت بہترین صورت ظاہر ہوتی ہے تو مومن دریافت کرتا ہے ،” من انت “ الخ کہ تو کون ہے تیرے چہرے سے خیر نظر آرہی ہے تو جواب یہ ہوگا۔” انا عملک الصالح “۔ کہ میں تیرا نیک عمل ہوں اس کے برعکس کافر اور فاسق وفاجر کے سامنے ڈراؤنی ہیبت ناک شکل آئے گی، اور یہ شخص جب پوچھے گا کہ تو کون ہے تیرے چہرے سے تو شر ٹپک رہا ہے اس پر یہ شکل جو اب دے گی۔ انا عملک الخبیث “۔ میں تیرا خبیث عمل ہوں، الغرض یہ عالم برزخ عالم آخرت کا دیباچہ ہے، جیسا انجام نجات یا ہلاکت کا ہونا ہے اسی کے مطابق قبر ہی میں معاملہ شروع ہوجائے گا۔ حضرات عارفین کا قول ہے کہ قبر میں فقط روح سے سوال نہیں ہوتا بلکہ روح اور جسم دونوں سے ہوتا ہے اولا روح جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کو ایک قسم کی حیات دینے کے بعد سوال کیا جاتا ہے متکلمین کی رائے ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد روح کا تعلق من وجہ اپنے جسد سے باقی رہتا ہے، عالم برزخ میں روح کو جسم سے مفارقت کلی حاصل نہیں ہوتی، البتہ قیامت کے روز یہ تعلق جسم کے ساتھ کامل ہوجائے گا، اور اس وجہ سے روح اور جسم دونوں کے آثار کلی طور پر ظاہر ونمایاں ہونگے انسان جسم اور روح سے مرکب ہے جیسا کہ ظاہر ہے دنیا میں تو جسم کے احکام ظاہر اور غالب ہوتے ہیں اور روح کے مغلوب ومستور، عالم برزخ میں روح کے احکام غالب وظاہر ہوں گے اور جسم کے مغلوب ومستور رہتے ہیں بلکہ جسم کی ظاہری ہئیت ہی ختم ہوجاتی ہے، اس کے برعکس دنیا میں میں روح کے احکام مستور ہوتے ہیں جس طرح کہ خود روح جسم میں مستور ہوتی ہے اور حشر کے دن جسم اور روح دونوں کے احکام اور آثار برابر یکساں کردیئے جائیں گے ان میں سے کوئی مغلوب ومستور نہ ہوگا بلکہ دونوں نمایاں اور برابر ہوں گے ، شیخ عبدالکریم شہر ستانی (رح)۔” نہایۃ الاقوام “۔ میں فرماتے ہیں کہ نکیرین کے سوال و جواب کے لیے روح کا تمام اجزاء بدن سے تعلق ضروری نہیں ہے بعض اجزاء بدن سے تعلق کا فی ہے، کیونکہ زندگی میں بھی ادراک و شعور اور فہم مطلق جسم کے بعض اجزاء ہی سے تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح مرنے کے بعد قبر میں اللہ تعالیٰ ان اجزاء مخصوصہ کے ساتھ روح کا تعلق قائم فرما کر زندہ کردیں گے اور نکیرین کا سوال و جواب دراصل انہی اجزاء مخصوصہ سے ہوگا اور پھر قیامت کے روز یہی اجزاء اصلیہ حشر ونشر کے وقت اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ (نہایۃ الاقوام للامام الشہرستانی (رح)۔ بحوالہ عقائد الاسلام حضرت مولانا محمد ادریس (رح) بہرکیف یہ آیات (آیت ) ” النار یعرضون علیھا “۔ برزخ میں عذاب قبر ثابت کررہی ہے اور یہ کہ یہ عذاب قبل از قیامت ہوگا جیسے کہ (آیت ) ” ویوم تقوم الساعۃ “۔ کی تصریح اس پر دلالت کررہی ہے اور حبیب نجار (رح) کے قصہ میں جن کو کفار نے شہید کردیا تھا تو ان کے متعلق ہے (آیت ) ” قیل ادخل الجنۃ قال یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی “۔ کہ شہادت کے بعد ہی حکم ہوگیا کہ جنت میں داخل ہوجائے تاکہ وہ بھی ایمان لائے تو ظاہر ہے کہ یہ ثواب مرنے کے بعد قبل از قیامت ہوا، اس طرح سے ثابت ہوا کہ قبل از قیامت عذاب کی طرح ثواب قبر بھی جو مومنین ومطیعین کے لیے ہوگا، اسی طرح آیت واقعہ (آیت ) ” فروح وریحان وجنۃ نعیم “ ‘۔ اور یہ سلسلہ انعام مرنے کے بعد فورا ہی ہے اور کفار کے حق میں مرنے کے بعد متصل احوال یہ ہیں (آیت ) ” فنزل من حمیم وتصلیۃ جحیم “۔ مہمانی کھولتے پانی کی اور جہنم کی آگ میں گھسنا آنحضرت ﷺ کا عذاب قبر سے پناہ مانگنا احادیث متواترہ اور صریحہ سے ثابت ہے۔ عذاب قبر کی وحی قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی یا مدینہ منورہ میں : فرعونیوں کے حق میں یہ آیات (آیت ) ” النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا ویوم تقوم الساعۃ “۔ سورة مومن کی آیات ہیں جو باتفاق ایمہ مفسرین مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورت ہے تو ان آیات میں عذاب قبر کا ذکر یہ بتلاتا ہے کہ قبل ہجرت مکہ ہی میں عذاب قبر کے بارے میں وحی نازل ہوچکی تھی۔ لیکن امام احمد بن حنبل (رح) کی تخریج کردہ وہ حدیث جس کا یہ مضمون ہے کہ ایک یہودی عورت ام ال مومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں آیا کرتیں اور حضرت عائشہ ؓ اس کی مدد فرمایا کرتیں تو جب بھی اسکے ساتھ کوئی احسان وغیرہ کرتیں تو وہ یہودیہ یہ دعا دیتی کہ ”۔ وقاک اللہ عذاب القبر “۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے بچائے، حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، یہ یہودیہ جھوٹ بولتی ہے، اور یہ لوگ تو اللہ پر بہت ہی جھوٹے ہیں قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔ پھر آپ ﷺ کچھ دن گزرنے کے بعد ایک روز نصف النہار کے وقت اپنی چادر اوڑھے باہر نکلے، اور گھبراہٹ کی وجہ سے آپ ﷺ کی آنکھیں سرخ تھیں اور آپ ﷺ بآواز بلند فرما رہے تھے، القبر کقطع اللیل المظلم۔ کہ قبر تورات کے تاریک ٹکڑوں کی طرح ہے، اے لوگو ! اگر تم کو وہ باتیں معلوم ہوجائیں جو میں جانتا ہوں تو تم لوگ کثرت سے رویا کرو اور بہت کم ہنسا کرو، اے لوگو ! پناہ مانگو اللہ کی عذاب قبر سے، کیونکہ عذاب قبر حق ہے، اس حدیث کو اگرچہ بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا مگر یہ ان کی شرط پر ہے، اسی طرح ایک اور حدیث کا مضمون بھی ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) ان دونوں حدیثوں کو ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ آیت وروایت میں تطبیق کے لیے یا تو یہ جواب دیا جائے کہ آیۃ قرآنیہ سے ارواح کفار کا عالم برزخ میں صبح وشام جہنم کی آگ پر پیش کیا جانا مراد ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کی اذیت وکلفت کا ان کے اجسام کے ساتھ قبور میں بھی اتصال وتعلق ہوگا تو قرآن کریم سے تو صرف اتنا ہی علم ہوا تھا کہ ارواح جہنم پر پیش کی جائیں گی، رہا اس اذیت و عذاب کا جسم تک پہنچنا یہ صرف احادیث کے ذریعہ معلوم ہوا۔ تو گویا عذاب ارواح مکی وحی سے معلوم ہوا اور عذاب اجساد کا علم مدینہ منورہ میں ہوا، یا تطبیق کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آیت سے برزخ میں کافروں کے عذاب کا علم ہوا۔ یہ مضمون اس کی دلیل نہ تھا کہ مومن پر بھی قبر میں عذاب ہوسکتا ہے، پھر مدینہ منورہ میں اس یہودیہ کے قصہ کے بعد آپ ﷺ کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا کہ مومن کی بھی قبر میں آزمائش ہوگی اور اس کے واسطے بھی اس کی معصیتوں پر عذاب قبر ہے، چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ” انکم تفتنون فی القبور قریبا من فتنۃ الدجال “۔ چناچہ امام بخاری ومسلم نے عبداللہ بن عمر ؓ کی سند سے یہ حدیث تخریج فرمائی ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ ان احدکم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ۔ وان کان من اھل النار فمن اھل النار، فیقال ھذا مقعدک حتی یبعثک اللہ عزوجل الی یوم القیمۃ۔ (صحیح بخاری۔ صحیح مسلم ) کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس پر اس کا ٹھکانہ صبح وشام پیش (اور ظاہر) کیا جاتا ہے اگر اہل جنت سے ہوتا ہے تو جنت والوں کا ٹھکانہ اور اگر اہل جہنم میں سے ہوتا ہے تو جہنم والوں کا ٹھکانہ، اور ان میں سے ہر ایک کو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانہ یہاں تک کہ تجھ کو اللہ عزوجل قیامت کے روز اٹھالے۔ تطبیق کی یہی صورت بہتر معلوم ہوتی ہے کہ عذاب برزخ جو مکی آیات میں ہے وہ کافروں کے حق میں معلوم ہوتا ہے، اور یہ تصریح نہ تھی کہ مومن کے لیے بھی قبر میں عذاب وآزمائش ہے تاآنکہ بعد از ہجرت مدینہ منورہ میں وحی کے ذریعہ اس کی بھی تصریح کردی گئی، واللہ اعلم الصواب “۔ اللہ رب العزت اپنی قدرت سے ان کو دور فرماتا ہے، اس کی قدرت کے سامنے کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں ارشاد فرمایا۔ بیشک ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی جیسا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ سے ظاہر ہوگیا اور اس روز بھی جب گواہیاں دینے والے کھڑے ہوں گے، وہ اللہ کے فرشتے ہیں جنہوں نے بندوں کے اعمال لکھے اور وہ نامہائے اعمال لیے کھڑے ہوں گے اور وہ گواہی دیتے ہوں گے کہ اللہ کے پیغمبروں نے اللہ کے احکام اس کے بندوں کو پہنچادئیے لیکن ان کافروں اور مجرموں نے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کی اطاعت نہ کی یہ قیامت کا روز ہوگا، جہاں کسی طرح کی معذرت وندامت کام نہ آئے گی تو یہ وہ دن ہوگا کہ ظالموں کو ان کی معذرت کوئی فائدہ نہیں دے گی، اور ان کے واسطے لعنت ہوگی اور بہت ہی برا ان کے واسطے ٹھکانہ ہوگا، تو اسی طرح اے ہمارے پیغمبر ﷺ آپ کی بھی آپ ﷺ کا پروردگار مدد کرے گا اور آپ ﷺ کی تکذیب و انکار کرنے والوں کے لیے دنیا میں بھی لعنت ہوگی اور قیامت کے روز بھی شدید عذاب ہوگا اور بیشک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت دی اور اپنی وحی عطا کی اور بنی اسرائیل کو وارث بنایا کتاب کا، یعنی تورات کا جو ہدایت ونصیحت تھی عقل والوں کے لیے کہ اگر اہل عقل اپنی عقل سے کام لیتے تو ضروروہ اس ہدایت سے منتفع ہوتے مگر اس بدنصیبی کا کیا علاج ہو کہ ایک بینا انسان اپنی آنکھیں بند کرلے اور سورج کی روشنی سے نفع نہ اٹھائے جس سے سارا عالم روشن ہے، اے پیغمبر اب یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ ان کو علوم وہدایت اور کتاب الہی آپ ﷺ کے ذریعے دی مگر یہ بجائے اس سے نفع اٹھانے کے اپنے آپ ﷺ کو ہلاکت وگمراہی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں تو آپ کفار مکہ کی ایذاؤں پر صبر کیجئے اور تسلی رکھیے بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے، اور اپنے قصور وفرو گذاشت کی اللہ سے معافی طلب کیجئے اگر ان کفار مکہ کی ایذاؤں پر صبر و تحمل میں نبوت و رسالت کے مقام عالی کی نسبت سے کوئی کمی رہ گئی ہو، اور اپنے رب کی پاکی بیان کرتے رہئے۔ اس کی حمد وثناء کے ساتھ صبح وشام تسبیح وتحمید قلب کی غذا ہے اس سے قلب کو تقویت حاصل ہوگی، اور ان تکالیف وشدائد کا برداشت کرنا آسان ہوگا، جو راہ حق میں آپ ﷺ کو پیش آرہی ہیں۔ اور ان جدال وخصومت کرنے والوں کی آپ ﷺ ہرگز کوئی فکر نہ کریں یقیناً جو لوگ اللہ کی آیتوں میں خصومت اور جھگڑا کررہے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی دلیل وحجت آچکی ہو۔ ایسے خصومت کرنے والے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا کرتے اور نہ ان کے جھگڑوں سے حق میں کسی قسم کا اشتباہ والتباس واقع ہوسکتا ہے۔ ان کی یہ خصومت تو بس غرور وتکبر ہی ہے ان کے سینوں میں کہ وہ کبھی بھی اس بڑائی تک نہیں پہنچنے والے ہیں، کہ جس بڑائی اور نخوت کے باعث ان کو آپ ﷺ کے اتباع میں عارمعلوم ہورہا ہے وہ ہرگز اس بڑائی اور عزت کے مقام تک نہیں پہنچ سکیں گے بلکہ انہیں ذلت وناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، تو آپ ﷺ پناہ مانگتے رہئے کا کوئی فعل وقول بھی اس سے چھپا ہوا نہیں اور اس کی پناہ و حفاظت نہایت اعلی اور مکمل پناہ ہے جس کو توڑنے کی کسی کو مجال نہیں ہوسکتی، آخر یہ منکرین آپ ﷺ کی باتوں کو کیوں جھٹلاتے ہیں، اور کیوں نہیں قیامت پر ایمان لاتے، ان کو بعث بعد الموت “۔ پر کیا تعجب ہے، یقیناً آسمانوں اور زمین کا ابتداء پیدا کرنا تو بہت بڑا کام تھا بہ نسبت انسانوں کے دوبارہ پیدا کرنے کے تو جب ایک بڑی عظیم قدرت کا نمونہ ان کے سامنے موجود ہے تو اس سے کم تر چیز کا کیسے انکار کررہے ہیں، یہ چیز بلاشبہ عقل کے خلاف ہے لیکن اکثر لوگ اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ کبھی ایسے حقائق اور شواہد پر غور نہیں کرتے، اور نہ ان پر کبھی اس طرح نظر ڈالتے ہیں کہ ان سے ایسی چیزیں سمجھ لیں، حالانکہ یہ دلائل سمجھنے کے لیے بہت کافی ہیں، اور بات یہ ہے کہ نابینا آدمی اور بینا آدمی برابر نہیں یقیناً ان میں تفاوت ہے اسی طرح انسانوں کا وہ طبقہ جو ان حقائق اور شواہد سے اللہ رب العزت کی معرفت حاصل کرتا ہے، اور وہ طبقہ جو نابیناؤں کی طرح اس سے محروم رہتا ہے باہم بڑا تفاوت رکھتا ہے، اور جب ان دونوں طبقوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو ظاہر ہے کہ اسی طرح ان کے انجام میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہوگا، اسی لیے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیکی کے کام کیے اور دوسرے وہ جو بڑے کام کرنے والے ہیں برابر نہیں یہ فرق اور بعد ایسا واضح ہے کہ ہر انسان کو سمجھ لینا چاہئے لیکن بہت ہی کم ہیں ایسے جو سمجھتے ہوں اور عبرت حاصل کرتے ہوں، یہ مانیں یا نہ مانیں قیامت بیشک ضرور آکر رہے گی جس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں، مگر پھر بھی بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں اور ان کافروں کی مخالفت وسازشوں اور ان کی طرف سے پیش آنے والی تکلیفوں اور مشقتوں سے مت گھبراؤ۔ اے مسلمانو ! تمہارے رب نے کہہ دیا ہے تم مجھ کو پکارو اور مجھ سے مانگو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا، وہ درخواست جس میں تمہارے واسطے خیر اور فلاح ہو، اس لیے جب بھی سعادت و فلاح اور اہل ایمان کے غلبہ و کامیابی اور کافروں کی ناکامی کی دعا مانگوگے میں قبول کروں گا بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے ذلت ورسوائی کے ساتھ بعد اس کے کہ دنیا میں بھی ان کی ذلت ورسوائی ہوچکی ہوگی، کیونکہ ہمارا وعدہ جو انبیاء سے نصرت و کامیابی کا ہوچکا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور وہ نصرت و کامیابی جب دنیا میں بھی ہے تو بلاشبہ کفار ونافرمان دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے، اور آخرت میں جہنم میں بھی ذلت کے ساتھ داخل ہوں گے۔ نصرت خداوندی کی صورتیں : حافظ ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں نصرت کے معنی اگرچہ کامیابی اور مدد کے ہیں لیکن کبھی نصرت خداوندی بدلہ لینے کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے تو اس تقدیر پر مطلب یہ ہوگا کہ بیشک ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کا کافروں سے بدلہ لیا کرتے ہیں چناچہ جب بھی کفار نے اللہ کے کسی پیغمبر یا مومنین پر غلبہ پاکر ان کو قتل کیا یا ستا کر ہلاک کیا اگرچہ اس وقت اہل حق مغلوب ہوگئے، مگر منجانب اللہ کسی وقت بدلہ ضرور ان سے لیا گیا، جیسے کہ اس پر قرآن و حدیث اور تاریخ گواہ ہے۔ سوال : شیخ ابوجعفر بن جریر (رح) نے (آیت ) ” ان لننصررسلنا “۔ پر ایک سوال وراد کیا اور پھر خود ہی اس کے دو جواب دیئے، فرمایا سوال یہ ہوسکتا ہے کہ بعض انبیاء (علیہم السلام) ایسے گذرے ہیں کہ ان کی قوموں نے ان کو قتل کرڈالا مثلا حضرت یحییٰ ، زکریا، اور شعیاء (علیہم السلام) اور بعض ایسے بھی گذرے ہیں کہ بےبس و لاچار ہو کر ان کو اپنی قوم سے ہجرت کرنی پڑی، جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور کوئی ایسے ہوئے کہ قوم کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے خدا نے انہیں آسمانوں پر اٹھالیا اور اس طرح کافروں کے ظلم اور قتل وصلب کے ارادہ سے محفوظ کیا جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تو ان صورتوں میں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی نصرت و کامیابی نہیں ہوئی، بلکہ مغلوبی وناکامی معلوم ہوتی ہے، اس سوال کے دو جواب دیئے ، پہلا جواب : تو یہ ہوسکتا ہے، یہ خبر عموم اور اکثریت کے درجہ میں ہے لہذا اگر بعض اس سے مستثنی ہیں تو یہ ممکن ہے، لیکن اس جواب کو پسند نہ کرتے ہوئے دوسرا جواب یہ دیا۔ دوسرا جواب : نصرت سے مراد یہ ہے کہ انبیاء اور اہل ایمان کا کافروں اور ان کو ستانے والوں سے ضروربدلہ لیا جائے گا، خواہ وہ بدلہ ان انبیاء اور ان ہی مومنین کی موجودگی میں ہو یا ان کے بعد چناچہ جن انبیاء کا کافروں نے قتل کیا، مثلا حضرت یحی، زکریا، اور شعیاء (علیہم السلام) ان کے قاتلوں پر اللہ نے بعد میں ایک قوم کو مسلط کیا انہوں نے ان کو ذلیل کیا اور خوب ایذائیں پہنچائیں اور خون بہایا، اسی طرح نمرود کو خدا نے بڑی ذلت کی موت مارا، اور جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا ارادہ کیا، خدا نے ان پر بعد میں روم کو مسلط کردیا تو اہل روم نے ان کو نہایت ہی ذلیل ورسوا کیا طرح طرح کی ایذائیں دیں، خون بہایا یہ تو دنیوی بدلہ ہوگیا اور اسی کی آخری قسط وہ ہوگی جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب نزول فرمائیں گے تو دجال کو اور یہود کو قتل کریں گے اور دنیا میں عدل و انصاف قائم کریں گے اور اللہ کی طرف سے امامت و قیادت کی عزت عطا کی جائے گی تو اس طرح خدا تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی عزت وسر بلندی ظاہر فرمائے گا اور قیامت کے روز جو بدلہ ہوگا وہ اس کے علاوہ ہے ، الغرض حق تعالیٰ کی یہ سنت قدیم ہمیشہ سے جاری رہی کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد فرماتا ہے اور ان کے ظالموں سے بدلہ لے کر مومنین کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے حق تعالیٰ کی اس سنت قدیم کو ابوہریرہ ؓ آنحضرت ﷺ کے ارشاد مبارک سے نقل فرماتے ہیں، فرمایا حق تعالیٰ کا ارشاد ہے جو بھی میرے کسی دوست سے دشمنی کا معاملہ کرے، پس اس نے میرے مقابلہ میں اعلان جنگ کردیا۔ اور میدان میں میرے سامنے نکل آیا، تاریخ شاہد ہے کہ خداوند عالم نے قوم نوح، عاد وثمود، قوم لوط اور اصحاب مدین اور ایسے اللہ کے رسولوں سے عداوت ومقابلہ کرنے والوں کا کیسا عبرت ناک انجام دنیا کو دکھایا اور سب سے اخیر میں خاتم الانبیاء والمرسلین جناب رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کی اللہ نے کیسی مدد اور کامیابی فرمائی اور دشمنوں کو ذلیل ورسوا کرکے (آیت ) ” کلمۃ اللہھی العلیا “۔ اور (آیت ) ” لیظھرہ علی الدین کلہ “۔ کا منظر دکھایا۔ گویا ایک وقت مغلوبیت کا گذارا مکہ سے ہجرت بھی کرنی پڑی۔ مگر مظلومیت اور بےبسی کے اس دور کے ساتھ ہی ساتھ انصار کا گروہ مہیا فرما دیا جن کی زندگیاں اللہ کے رسول اللہ ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کے لیے سراپا نصرت ہی نصرت تھیں، پھر اللہ نے کفار پر جنگ بدر میں غلبہ دیا ان کے رؤسا اور سردار قتل کیے گئے، قید وبند کی ذلت سامنے آگئی فدیہ دیکر رہائی حاصل کرنا ہی اپنے ہاتھوں اپنی ذلت و پستی کو اختیار کرلینا تھا، تاآنکہ مکہ مکرمہ فتح ہوا، وہی سردار وہی رؤسا قریش دست بستہ سرنگوں وشرمسار آپ ﷺ کے سامنے معافی مانگتے ہوئے حاضر ہورہے ہیں، اور آپ ﷺ ان پر احسان فرماتے ہوئے یہ فرماتے جارہے ہیں (آیت ) ” لا تثریب علیکم الیوم “۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جزیرۂ عرب اور یمن آپ ﷺ کا مطیع ہوا اور اہل کتاب جزیہ گذار ہوگئے، اور لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہونے لگے پھر آپ ﷺ کی رحلت کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں فارس وروم، افریقہ، اندیس، اور کابل تک فتوحات کا سلسلہ پھیل گیا، اور اسلام کا کلمہ اور دین کا غلبہ مشرق ومغرب میں دنیا نے دیکھ لیا، (تفسیر ابن کثیر ج 4) (آیت ) ” یوم یقوم الاشھاد “۔ باجماع مفسرین یہ دن قیامت کا دن ہے۔ اور (آیت ) ” الاشھاد “۔ کی تفسیر ملائکہ سے کی گئی، جو بندوں کے نامہائے اعمال لیے میدان حشر میں موجود ہوں گے، (آیت ) ” سوٓء الدار “۔ کی تفسیر میں بعض مفسرین مثلا سدی (رح) یہ بیان کرتے ہیں بئس المنزل والمقیل، یعنی بہت ہی بری اترنے کی جگہ اور بہت ہی بری آرام گاہ، اور جہنم کو آرام گاہ کہنا ایسا ہوگا جیسے (آیت ) ” فبشرھم بعذاب الیم “۔ میں لفظ بشارت استعمال کیا گیا، ابن عباس ؓ اس کی تفسیر انجام کی تباہی اور بربادی سے فرمایا کرتے تھے ، (آیت ) ” ادعونی ٓ استجب لکم “۔ انس بن مالک ؓ نے ایک حدیث قدسی کا مضمون آنحضرت ﷺ سے بیان کیا ہے فرمایا حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے چار باتیں ہیں جن میں سے ایک میرے واسطے اور ایک اے میرے بندے تیرے واسطے ہے، اور ایک میرے اور تیرے درمیان ہے اور ایک وہ ہے جو تیرے اور میرے دوسرے تمام بندوں کے درمیان ہے، جو چیز میرے واسطے ہے وہ یہ ہے کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرنا، اور جو چیز تیری مجھ پر ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی تو عمل خیر کرے گا اس کی جزاء میرے ذمہ ہے اور جو چیز میرے اور تیرے درمیان ہے وہ یہ کہ تو دعا کرے اور میں اس کو قبول کروں اور جو تیرے اور مخلوق کے درمیان ہے وہ یہ کہ تو ان کے واسطے وہی چیز پسند کر جو اپنے واسطے پسند کرتا ہے، نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ ان الدعآء ھو العبادۃ۔ یعنی دعا عبادت ہی ہے، اس وجہ سے دعا کے مضمون کو (آیت ) ” ان الذین یستکبرون عن عبادتی “۔ پر مکمل فرمایا۔ اور اس سے ظاہر ہوا کہ استکبار عن العبادۃ جیسے کفر ونافرمانی ہے اسی طرح دعا سے اعراض وبے رخی کرنا بھی اسی کا مصداق ہے، حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص دعا نہیں کرتا خدا اس پر ناراض ہوتا ہے۔ دعا اور دعا کی قبولیت کی تفصیل (آیت ) ” واذا سالک عبادی “۔ میں گزر چکی ہے، مراجعت فرمائی جائے ، دعا کی حکمت اور اس کی قبولیت اور عدم قبولیت کا راز : بارگارہ خداوندی میں انسان کے لیے سب سے بڑی عزت و عظمت اور قرب کا عمل دعا ہے، کیونکہ دعا عبدیت کا مظہر اتم ہے، اور حق تعالیٰ نے جب آنحضرت ﷺ کے سفر اسراء کا ذکر فرمایا تو عنوان (آیت ) ” سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا “۔ میں عبد کا لفظ اختیار فرمایا، اسراء چونکہ سب سے زیادہ عظمت وبلندی کا واقعہ تھا تو اس کو وصف عبدیت سے ذکر کرکے اشارہ فرما دیا گیا کہ عبدیت ہی تو وہ وصف ہے جو ان عظمتوں کا باعث بنا اور ظاہر ہے کہ دعا کرنے والا اپنے احتیاج کا بھی یقیناً تصور رکھتا ہے، ساتھ ہی رب العزت کی عظمت وکبریائی کا اعتقاد بھی قلب میں راسخ اور تازہ ہوگا، اور اس التجا کے ضمن میں پروردگار عالم کا تعلق اور جذبہ محبت بھی حاصل ہوگا، اسی وجہ سے دعا مانگنے والا بندہ خدا کے نزدیک بڑی عزت کا مستحق ہوتا ہے، اور اللہ کو اپنے بندہ کے مانگنے سے خوشی ہوتی ہے اور دعا نہ کرنا ایک قسم کا استغناء اور کبر ہے جو اللہ کو ہرگز پسند نہیں تو اس وجہ سے جو شخص دعا نہیں مانگتا خدا اس سے ناراض ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث میں وارد ہے) مخلوق کے سامنے اپنی حاجت پیش کرنا اور مانگنا ذلت ہے، لیکن خالق کے سامنے اپنی حاجت کو پیش کرنا اور اس سے مانگنا عزت کا ذریعہ ہے۔ یہ دنیاعالم اسباب ہے، اور بندہ طرح طرح کی حاجتوں میں جکڑا ہوا ہے، انسان اپنی حوائج کی تکمیل کے لیے مادی اسباب مہیا کرنے کا مکلف ہے۔ لیکن مادی اسباب کی کامیابی اسی پروردگار کے قبضہ قدرت میں ہے اس لیے انسان کو صرف مادی اسباب پر بھروسہ اور اعتماد درست نہیں، باوجود اسباب ظاہرہ کے دعا کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، تاکہ ظاہری اسباب کو یہ باطنی سبب کا میابی اور تکمیل کے مرحلے تک تک پہنچاسکے، جو لوگ صرف ظاہری اسباب کو کافی سمجھ کر دعا اور توجہ الی اللہ اور تضرع کو (العیاذ باللہ) بیکار سمجھتے ہیں وہ یقیناً عقل و دانش سے بعید ہیں، کیا دن رات کا یہ مشاہدہ نہیں کہ تاجر بازار میں دکان بھی لگاتا ہے، مال بھی رکھتا ہے اور جس قدرتدابیر ممکن ہیں انہیں بروئے کار بھی لاتا ہے لیکن بہت سے ہنرمند تاجر ناکامی اور خسارہ میں پڑتے ہیں اور بہت سے جو اس طرح کی تدابیر نہیں کرتے نفع اور کامیابی کی وہم و گمان سے بڑھ کر منزلیں طے کرتے ہیں یہ مشاہدات اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہر مقصد کی کامیابی کے لیے صرف ظاہری وسائل واسباب کافی نہیں، یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت پر موقوف ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسی سے مانگا جائے حضرت حکیم الامۃ قدس سرۂ کے ایک ملفوظ میں ہے۔ جاننا چاہئے کہ یہ عالم عالم اسباب ہے اور بندہ حاجتوں میں جکڑا ہوا ہے بندہ کو چاہئے کہ وہ دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے، دوا ظاہری سبب ہے اور دعا باطنی سبب ہے، جو لوگ جدید تعلیم کی وجہ سے طبعیات میں غلو رکھتے ہیں، ظاہر پرستی کی وجہ سے خفی اور معنوی اسباب تک ان کی نظر کی رسائی نہیں، ایسے لوگ دعا کو بیکار سمجھتے ہیں اور تمام آثار کو اسباب طبعیہ میں منحصر جانتے ہیں، ان آزاد منشوں نے اپنے گمان میں ایک قانون فطرت تجویز کر رکھا ہے اور اس کو بننے میں تو اللہ کے ماتحت مانتے ہیں مگر چلنے میں اس کا محتاج نہیں مانتے بلکہ نعوذ باللہ خود واجب الوجود کو اس کا تابع سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو خاص انتظام پر پیدا تو کردیا لیکن وہ اب اس طرح خود بخود چل رہا ہے اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا جیسے گھڑی چابی دینے میں تو دوسرے کی محتاج ہے مگر اس کے بعد خود بخود چلتی رہتی ہے گویا کہ اب اللہ تعالٰ کو بھی تغیر وتبدل کا اختیار نہیں اس عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کا اضطرار اور عجزلازم آتا ہے، اور یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مشیت اور اختیار سے خالی اور عاری ہے، جیسے فلاسفہ یونان کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بمعنی واجب الوجود حدوث عالم کی علت موجبہ اضطرار یہ ہے، فلاسفہ یونان باری تعالیٰ کے لیے اختیار اور ارادہ اور مشیت کے قائل نہیں، اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فاعل بااختیار ہے ہر چیز کا وجود اور بقاء اور اس کی تاثیر اس کے ارادہ اور مشیت پر موقوف ہے (انتہی کلامہ ) انسان بعض مرتبہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہورہی ہے تو اس کو یہ گمان نہ رکھنا چاہئے کہ (آیت ) ” استجب لکم “۔ کا وعدہ الہی پورا نہیں ہورا ہے، بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ میری دعا میں صرف ظاہری الفاظ ہوں، دعا کی روح اور حقیقت جو تضرع اور زاری ہے وہ اس میں نہ ہوگی، اور دعا میں جب روح ہی نہیں تو اس میں کیا اثر ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو دعا اس نے مانگی ہے وہ اللہ کے نزدیک خود اس کے لیے بہتر نہ ہو، انسان کا علم ہی قاصر ہے، اور فہم بھی ناقص، احکم الحاکمین ہی علام الغیوب ہے وہ بندہ کی مصلحتوں کو جانتا ہے تو بسا اوقات بندہ جو دعا مانگتا ہے وہ خود اس کے واسطے مضر ہوتی ہے تو خدا کی رحمت یہی ہوتی ہے کہ اس دعا کی قبولیت نہ ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ آداب دعا کی رعایت نہ کی ہو اس وجہ سے قبول نہیں ہورہی ہے ، یہ بھی ممکن ہے کہ شرائط دعا کی رعایت نہ کی ہو تو اثر ظاہر نہ ہورہا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص کا کھانا پینا لباس وغیرہ سب کچھ حرام ہو تو ایسا صورت میں ظاہر ہے کہ دعا کیسے قبول ہوگی، جیسے کہ حدیث میں ہے ایک شخص پراگندہ حال طویل سفر طے کرتے ہوئے دعا کرتا ہے اور حال یہ ہے کہ ملبسہ حرام ومشربہ حرام وغذی بالحرام فانی یستجاب۔ یعنی اس کا لباب حرام اس کا کھانا پینا ہی حرام الغرض اس کی غذا ہی حرام ہے تو پھر ایسی صورت میں کہاں اس کی دعا قبول ہوگی۔
Top