Al-Quran-al-Kareem - Al-Ghaafir : 46
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ : آگ يُعْرَضُوْنَ : وہ حاضر کئے جاتے ہیں عَلَيْهَا : اس پر غُدُوًّا : صبح وَّعَشِيًّا ۚ : اور شام وَيَوْمَ : اور جس دن تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ : قائم ہوگی قیامت اَدْخِلُوْٓا : داخل کرو اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے اَشَدَّ : شدید ترین الْعَذَابِ : عذاب
جو آگ ہے، وہ اس پر صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی، آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔
(1) النار یعرضون علیھا عدوآ و عیشیا، سمندر میں غرق کئے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں گھیرنے والے دو بدترین عذابوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک قیامت تک ہونے والا عذاب ، عذاب قبر یا عذاب برزخ ہے، جو موت اور آخرت کے درمیانے وقفے میں انھیں آگ کی صورت میں ہو رہا ہے، جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں۔ خواہ ان کے جسم سمندری جانوروں کی خوراک بنے ہوں یا کسی عجائب گھر میں محفوظ ہوں، یا خاک میں مل گئے ہوں ، ان کا ہر ذرہ جہاں بھی ہے وہی اس کی قبر ہے اور قیامت تک اسے یہ عذاب ہوگا۔ صبح و شام سے مراد ہر وقت ہے اور یہ محاورہ عربی ہی نہیں ہر زبان میں بولا جاتا ہے۔ دیکھیے سورة مریم (62)۔ (2) ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب : یہ دوسرا عذاب ہے جو قیامت کے دن شروع ہوگا۔ یہ آیت عذاب قبر کی واضح دلیل ہے۔ بعض لوگوں نے واضح آیات و احادیث کے باوجود عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ لعیہ نے صحیح بخاری میں ”کتاب الجنائر“ کے تحت ”باب ما جآء فی عذاب القبر“ میں عذاب قبر ثابت کرنے کے لئے تین آیات اور متعدد احادیث ذکر فرمائی ہیں۔ پہلی آیت :(اذا الظلمون فی عمرت الموت والملئکۃ باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم الیوم تجرون عذاب الھون) (الانعام : 93)”جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔“ دوسری آیت (سنعذبھم مرتبین ثم یرذون الی عذاب عظیم) (التوبۃ : 101) ”عنقریب ہم انہیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔“ تیسری یہ آیت جو یہاں زیر تفسیر ہے۔ عذاب قبر سے متعلق صحیح بخاری میں مذکور احادیث میں سے چند یہاں درج کی جتای ہیں۔ انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ان العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی عنہ اضحابہ و انہ لیسمع فرع نعالھم اتاہ ملکان فیقعد انہ فیقولان ماکنت تقول فی ھذا الرجل لمحمد ﷺ ؟ فاما المومن فیقول اشھد انہ عبداللہ و رسولہ فیقال لہ انظر الی مقعدک من النار، قد ابدلک اللہ بہ مقعداً من الجنۃ ، فیر ا ھما جمیعاً ، قال قتادہ و ذکر لنا انہ یفسح لہ فی قبرہ ثم رجع الی حدیث انس قال و اما المنافق والکافر فیقال لہ ما کنت نقول فی ھذا الرجل ؟ فیقول لا اذری کنت اقول مایقول الناس فیقال لا ذریت ولا تلیث و یضرب بمطارق من خدید صربۃ فیصیح صیحۃ یسمعھا من یدرہ غیر التعلمین) (بخاری، الحنائر، باب و ما جاء فی عذاب القبر :1383)”آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے واپس لوٹتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس وہ فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں :”تو اس آدمی محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟“ جو مومن ہے وہ کہتا ہے :”میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔“ تو اس سے کہا اجتا ہے :”آگ میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ لے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تجھے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔“ تو اسے وہ دونوں ٹھکانے اکٹھے دکھائیج اتے ہیں۔ قتادہ نے کہا ”ہمیں بتایا گیا کہ پھر اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔“ پھر قتادہ نے انس ؓ سے مروی حدیث آگے بیان فرمائی :”اور جو منافق یا کافر ہے، اس سے کہا جاتا ہے :”تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟“ و کہتا ہے :”میں نہیں جانتا، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔“ تو اس سے کہا جاتا ہے :”نہ تو نے جانا اور نہ کسی کے پیچھے چلا۔“ پھر اسے لوو ہے کے ہتھوڑوں سے ایک ایسی ضرب ماری جاتی ہے، جس سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے جسے انسانوں اور جنوں کے سوا اس کے آس پاس کے سب سنتے ہیں۔“ ابو ایوب ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ سورج غروب ہونے کے بعد باہر نکلے، آپ ﷺ نے ایک آواز سنی، تو فرمایا (یھود تعذب فی قبورھا) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1385) ’ یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔“ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا :(انھما لیعذبان، وما یعذبان فی کبیر ، ثم قال بلی، اما اخدھما فکان یسعی بالنمعمۃ واما اخدھما فکان لایستبرمن بولہ) (بخاری، الجنائر، باب عذاب القبر من الغیۃ والیول :1368)”بلا شبہ یقیناً ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔“ پھر آپ نے فرمایا :”کیوں نہیں ! (وہ واقعی بڑی ہیں) ان میں جو ایک ہے وہ چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔“ ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے (اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر، ومن عذاب النار، ومن فتنۃ المحیا والممات، ومن فتنہ المسیح الدجال) (بخاری، الجنائر، باب التعوذ من عذاب القبر :1388)”اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور آگ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے۔“
Top