Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 46
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ : آگ يُعْرَضُوْنَ : وہ حاضر کئے جاتے ہیں عَلَيْهَا : اس پر غُدُوًّا : صبح وَّعَشِيًّا ۚ : اور شام وَيَوْمَ : اور جس دن تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ : قائم ہوگی قیامت اَدْخِلُوْٓا : داخل کرو اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے اَشَدَّ : شدید ترین الْعَذَابِ : عذاب
(یعنی) آتش (جہنم) کہ صبح وشام اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو
(40:46) النار۔ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یہ سوء العذاب سے بدل ہے یعنی وہ سخت عذاب جہنم کی آگ ہوگی۔ (2) یہ خبر ہے جس کا مبتداء محذوف ہے کانہ قیل ما سوء العذاب فقیل ھو النار۔ یعنی کوئی پوچھے وہ سخت عذاب کیا ہوگا اور خواب میں کہا جائے وہ عذاب دوزخ یا دوزخ کی آگ ہوگا۔ (3) مبتدا ہے اور اس کی خبر اگلا جملہ یعرضون علیہا ہے۔ یعرضون علیہا : یعرضوں مضارع مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ عرض (باب ضرب) مصدر پیش کرنا۔ عرض علی کسی کے سامنے پیش کرنا۔ جیسے عرض المتاع للبیع : سامان کو فروخت کے لئے خریداروں کے سامنے پیش کرنا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع النار ہے۔ یعنی ان کو دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ (جلانے کے لئے) ۔ غدوا : ای فی الغدو صبح کے وقت عشیا رات کے وقت۔ دونوں بوجہ مفعول فیہ ہونے کے منصوب ہیں۔ یہاں صبح و شام سے مراد اس دنیا کے صبح و شام نہیں بلکہ اس عالم آخرت میں وقت کے تعین کی جو بھی صورت ہوگی اس کے مطابق ۔ صبح کو بھی پیش کئے جائیں گے اور شام کو بھی یا صبح و شام سے مراد ہمیشگی ہے جیسے اس دنیا میں ہم کہتے ہیں کہ کام صبح و شام ہوتارہتا ہے۔ یعنی ہمیشہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ جب تک کہ یہ صبح و شام کا سلسلہ جاری ہے۔ فائدہ : علمائے اہل سنت نے اس آیت سے عذاب قبر کا اثبات کیا ہے اور علمائے معتزلہ عالم برزخ میں عذاب کے قائل نہیں ہیں۔ ویوم ۔۔ اشد العذاب : ای یوم تقوم الساعۃ یقال لخزنۃ جھنم ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ اور جس روز قیامت قائم ہوگی تو دوزخ کے پہرہ داروں کو کہا جائے گا کہ فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کر دو ۔
Top