Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaafir : 46
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ : آگ يُعْرَضُوْنَ : وہ حاضر کئے جاتے ہیں عَلَيْهَا : اس پر غُدُوًّا : صبح وَّعَشِيًّا ۚ : اور شام وَيَوْمَ : اور جس دن تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ : قائم ہوگی قیامت اَدْخِلُوْٓا : داخل کرو اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے اَشَدَّ : شدید ترین الْعَذَابِ : عذاب
(اور عالم برزخ میں) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردیا جائے گا
آگ ہے جس پر وہ صبح وشام پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کے روز کا عذاب اس کے سوا ہو گا 46۔ قرآن کریم میں موت کو نیند اور نیند کو موت سے تشبیہ دی گئی اور ہماری زبان میں عام محاورہ بھی ہے کہ مرا ہوا اور سویا ہوا یک ہی طرح کے ہوتے ہیں اور یہ بات ہمارے تجربہ میں ہے کہ سوئے ہوئے آدمی کے پاس بڑے بڑے کام ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ لوگ آتے ہیں اور پورے گھر کا صفایا کر جاتے ہیں لیکن سوئے ہوئے کو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی ہاں ! وہ جاگ جائے یہ دوسری بات ہے۔ خواب میں بستر استراحت پو سویا ہوا انسان اگر کوئی ڈرائونا خواب دیکھتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے تو ہو مضطرب حالت میں جاگتا ہے اور اس کے جسم پر اس کے اثرات ہوتے ہیں ان باتوں سے کوئی شخص بھی اگر وہ ذرا عقل وفکر رکھتا ہے تو انکار نہیں کرسکتا۔ یہ تو اس عالم دنیا کی بات ہے اور جب انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی طریقہ سے بھی ہو تو روح وجسم دونوں میں تفریق کلی ہوجاتی ہے جسم مردہ ہو کر فنا فی الارض ہوجاتا ہے خواہ وہ جس طریقہ سے بھی ہو اور روح رب ذوالجلال والاکرام کی طرف مراجعت کر جاتی ہے جس کا مطلب و مفہوم یہی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے جو مقام روحوں کو روکنے کا بنا رکھا ہے وہ اس مقام پر پنچا دی جاتی ہے لیکن یہ معاملہ عالم غیب کا ہے جس کے متعلق نہ کوئی جان سکا اور نہ ہی جان سکے گا جب تک کہ مرنے کے بعد اس دنیا سے اس کا تعلق قائم نہ ہوجائے۔ اب اس پر اگر بحث کی جائے تو وہ فضول ہے اور بالکل لا حاصل ہے اس لیے اس کے متعلق جو کتاب وسنت میں اشارات واستعارات بیان کیے گئے ہیں ان ہی پر ہم کو اکتفا کرنا ہوگا کیونکہ یہ وہ مقام ہے جہاں عقل انسانی کی رسائی نہیں خواہ وہ کون ہو جو باتیں انبیاء کرام اور رسل عظام نے اس سلسلہ میں کہی ہیں ان کو اس بطرح تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ رسالت و نبوت نے جو کچھ کہا ہے وہ تفہیمات الہیہ ہیں جو نبوت و رسالت ہی سے خاص ہیں سوائے ان کے کسی انسان کو ان باتوں میں بحث بےراہ رو تو کرسکتی ہے سیدھی راہ کی طرف نہیں لے جاسکتی جس طرح دینیات کا عالم ایک انجینئر کے کام کو اس طرح نہیں سمجھ سکتا جس طرح انجینئر سمجھتا ہے اور اس طرح کی ساری مثالیں رسالت ونبوت کے سامنے ہیچ ہیں تا ہم ان کے سوا چارہ بھی نہیں ہاں ! ایک انجینئرکا انجینئر سے اگر کوئی اختلاف ہوجائے تو وہ بھی کوئی استاد ہی حل کرسکتا ہے آپ اور میں اگر کچھ لیں گے تو دخل در معقولات ہی ہوگا لیکن کسی نبی ورسول کو کسی دوسرے نبی ورسول سے کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا اور اب اس کا امکان ہی ختم ہوچکا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے لیے صرف اور صرف مان لینے کے سوا چارہ نہیں۔ ہم اگر زیادہ سے زیادہ دیکھ سکتے ہیں تو یہی کہ اس معاملہ میں کسی جگہ کوئی ایسا اختلاف تو نہیں پایا جاتا جس اختلاف سے دو متضاد باتیں ہم کو سمجھائی جا رہی ہوں اور اگر وہ متضاد باتیں ہوں گی تو ہم ان دونوں میں سے ایک کا اگر اثبات کریں گے تو دوسری کا بہرحال انکار کرنا ہوگا کیونکہ ہم کو یہ اصول معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بات میں تضاد ممکن نہیں ہے اور یہ بحث اصولی بحث ہے۔ انسان کے مرنے کے ساتھ ہی اگر اس کی روح بھی مر جاتی ہے تو قیامت تک مرنے والا بلاشبہ مراہی رہے گا اور کوئی عذاب قبر یا عذاب برزخ وغیرہ نہیں ہوگا اور اگر جسم مرتا ہے اور روح نہیں مرتی تو عذاب قبر اور عالم برزخ وغیرہ کے استعارات بالکل صحیح اور درست ہیں اگرچہ ہم ان کی حقیقت سے نہ آگاہ ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بحث جو کچھ ہے وہ صرف اور صرف روح کے مرنے پر ہے نہ کہ عذاب قبر یا عالم برزخ کے عذاب کے متعلق کیونکہ یہ تو وہ استعارات وشارات ہیں جو محض تفہیم کے لیے بولے گئے ہیں اور بولے جانے چاہیں تھے اور اب اگر یہ تحقیق ہوجائے اور تحقیق بھی صحیح ہو کہ بلاشبہ جسم کے ساتھ روح نہیں مرتی تو ان تسلیم شدہ حقائق پر زیادہ چڑنے کی ضرورت نہیں صرف اس تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ نے اس معاملہ میں جو ارشاد فرمایا وہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں ؟ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ عذاب قبر اور عذاب برزخ وغیرہ سے انکاری ہیں وہ انکار بھی کرتے ہیں اور روح کو بھی مردہ نہیں مانتے یا تسلیم کرتے اور یہی وجہ ہے کہ یہ بحث مثبت بحث نہیں رہتی بلکہ منفی بحث شروع ہوجاتی ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ زیر نظر آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو صبح وشام اس آگ پر پیش کیا جاتا ہے جس آگ سے وہ منکر تھے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور پھر قیامت کے روز عذاب دوزخ میں باقاعدہ طور پر ان کو داخل کردیا جائے گا اور اب دوبارہ زندگی جو جسم اور روح کے ساتھ ہوگی اس میں بھی وہ عذاب الہٰی میں مبتلا کردیئے جائیں گے۔ جس طرح دو زندگیاں اور دو موتیں ہیں اور وہ سب کے لیے یکساں ہیں خواہ وہ کون ہو کہاں ہو اور کیسا ہو اسی طرح اس جگہ بدکاروں اور بدکرداروں کے لیے دو عذابوں کا ذکر کیا گیا ہے اور دونوں ہی مرنے کے بعد ہوں گے ایک اصل عذاب ہے جو آخرت نہ آئی ہو تو اس حکم کے بعد کی زندگی تو ہوتی ہے لیکن نہایت کربناک اور تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن اس کو موت بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ محض تفہیم کے لیے ہم نے کہا ہے ورنہ اس دنیوی عذاب اور مرنے کے بعد کے عذاب میں جو فرق ہے وہ سب پر عیاں ہے اور اگر نہیں تو یقینا ہوجائے گا۔ دراصل عذاب قبر ہو یا علام برزخ یا اس کو کسی نام سے بھی یاد کیا جائے اس کی وضاھت چونکہ قرآن کریم نے نہیں کی بلکہ رسول مکرم ﷺ ہی نے کی ہے اور احادیث ہی میں اس کا زیادہ ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ صرف اس معاملہ میں نہیں ہوا بلکہ علاوہ ازیں ارکان اسلام تک کی وضاھت وتشریح قرآن کریم نے نہیں کی بلکہ وضاحت کا سارا انحصار احادیث ہی پر ہے اور احادیث کا انکار کرنے والوں کے لیے یہ راستہ بالکل آسان ہے کہ وہ کہہ دیں کہ اس کا ذکر احادیث میں ہے جن کو کوئی اعتبار نہیں اور قرآن کریم میں اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں اور احادیث کے ماننے اور تسلیم کرنے والوں کے لیے اس کا انکار ممکن ہی نہیں اور جو اشارات قرآن کریم میں پائے گئے ہیں وہ دوسرے ارکان اسلام کی طرح ان احادیث کے صحیح یا موضوع ہونے میں مدد دے سکتے ہیں اگر کوئی ان سے مدد حاصل کرنا چاہے اور اگر احادیث کی اقسام پر بحث شروع کردی جائے تو یہ ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا جس کا عمر نوح بھی فیصلہ نہیں کرسکتی اس طرح کی بحث قبل ازیں لوگوں نے ارکان اسلام پر بھی کی ہے اور ارکان اسلام کو اس طرح ماننے اور تسلیم کرنے والوں کے درمیان جو ضمنی بحث چلتی ہے کہ کیا اس میں مرفوع اور کیا غیر مرفوع تو وہ بھی ہر معاملہ میں موجود ہے ایک ایک بات کو غیر مرفوع قرار دیتا ہے تو دوسرا دوسری کو ایک ایک روایت میں کیڑے نکالتا ہے تو دوسرا دوسری میں یہاں تک کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ جیسی چیزوں میں اس قدر اختلاف کیے گئے ہیں کہ اگر شمار کرنا شروع کردیں تو شمار نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایک کے متعلق بحث شروع کریں تو جنگ وجدال تک نوبت آجاتی ہے کوئی ایک بھی کسی دوسرے کی بات کو تسلیم نہیں کرتا اور اگر ساتھ ان ضمنی سوالوں کو بھی ملا دیا جائے کہ آیا عذاب قبر اور برزخ کی زندگی کیسی اور کونسی زندگی ہے ؟ یا یہ کہ آیا یہ کوئی زندگی ہے بھی یا نہیں تو اس سے آخر کیا فرق پڑے گا یہی کہ جیسے پہلے معاملات میں لڑ رہے ہیں اس ایک نئے معاملے میں لڑتے رہیں گے۔ بہرحال ہمارے خیال میں خالص بحث طلب بات صرف اور صرف یہ ہے کہ آیا انسان کے مرنے کے ساتھ ہی اس کی روح بھی مرجاتی ہے یا صرف جسم مرتا ہے روح کے لیے موت نہیں ہے ؟ لیکن ہمارے ہاں اصولوں پر بات کم ہی لوگ کرتے ہیں صرف فروعات کی بحث پر زندگیاں ختم کردی جاتی ہیں اور اصولوں کی طرف کبھی نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا کیوں ؟ اس لیے کہ اصول پر بحث کرنے سے انسان کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے اور ہم کسی نتیجہ پر پہنچنا نہیں چاہتے بلکہ محض بحث کا میدان جیتنا چاہتے ہیں اس لیے بحث یہاں بھی کر رہے ہیں اور دوزخ میں بھی اس سے پیچھا نہیں چھوٹے گا اس کا خاتمہ ہے تو وہ صرف اور صرف جنت کی زندگی ہی میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس بحث ومناظرہ سے نجات عطا فرما دے اور ہمیں جنت کی طرف گا مزہ ہونے کی توفیق عطا فرما دیے۔ اے اللہ ! ہماری دعا قبول فرما۔
Top