Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaafir : 46
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا١ۚ وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ
اَلنَّارُ : آگ يُعْرَضُوْنَ : وہ حاضر کئے جاتے ہیں عَلَيْهَا : اس پر غُدُوًّا : صبح وَّعَشِيًّا ۚ : اور شام وَيَوْمَ : اور جس دن تَقُوْمُ السَّاعَةُ ۣ : قائم ہوگی قیامت اَدْخِلُوْٓا : داخل کرو اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے اَشَدَّ : شدید ترین الْعَذَابِ : عذاب
آگ پر پیش کیے جاتے ہیں وہ (آل فرعون) صبح اور شام اور جس دن قیامت برپا ہوگی (فرشتوں سے کہا جائے گا) داخل کرو آل فرعون کو سخت عذاب میں ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے توحید اور جزائے عمل کی بات سمجھانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ آل فرعون کا ذکر کیا کہ انہوں نے کسی طرح سرکشی کی ، حق کی مخالفت کرتے رہے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو تکالیف پہنچائیں اور آخر میں قتل کے درپے ہوئے اس دوران میں قوم فرعون میں سے ایک مرد مومن نے آل فرعون کو نصیحت کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی مخالفت کی اور پھر اپنے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ، اللہ تعالیٰ نے اس مرد مومن اور موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے حواریوں کی بری تدبیر سے بچا لیا اور خود انہی کو عذاب میں مبتلا کیا ، دنیا میں تو وہ بحر قلزم میں غرقی ہوئے اور اب عالم برزخ میں بھی ان کو سخت تکلیف پہنچ رہی ہے ، جب کہ آخرت کا دائمی عذاب ابھی آنے والا ہے ۔ (برزخ میں جزا وسزا کا مسئلہ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا “۔ ان کو صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے ، اس وقت فرعون اور اس کے حواری عالم برزخ میں ہیں اور اسی دوران کی کیفیت بتلائی جا رہی ہے کہ انہیں ابھی سے صبح شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آخرت میں ابدی جہنم کا تھوڑا سا نمونہ ابھی سے چکھ لیں ۔ (آیت) ” ویوم تقوم الساعۃ “۔ اور پھر جب قیامت برپا ہوگی ، اس دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے (آیت) ” ادخلوا ال فرعون اشد العذاب “۔ کہ آل فرعون کو سخت عذاب میں داخل کر دو ، یہ سزا ان کو اس لیے دی جا رہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں یہ لوگ بڑے سرکش ، مغرور اور حد سے تجاوز کرنے والے تھے ۔ یہ آیت منجملہ ان دس آیات میں سے ہے جن میں بزرخ یا عذاب قبر کا ذکر ملتا ہے ، ان آیات سے متبادر ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد کفار ، مشرکین اور دیگر گنہگاروں کو قبر میں تکلیف پہنچتی ہے ، جب کہ اہل ایمان اور نیکی والوں کو راحت نصیب ہوتی ہے تمام بڑے بڑے مفسرین امام بیضاوی (رح) امام ابوبکر جصاص (رح) ، امام رازی (رح) ، صاحب مدارک (رح) وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے عذاب قبر برحق ہے ، لہذا برزخ کے ثواب و عذاب کا مسئلہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک متفق علیہ ہے ، البتہ بعض گمراہ فرقے معتزلہ ، رافضی ، چکڑالوی اور پرویزی وغیرہ عذاب قبر کے منکر ہیں اور وہ عالم بزرخ میں انسان کے جسم وروح کے تعلق اور پھر احساس راحت والم کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے قبر کے عارضی عذاب اور پھر آخرت کے دائمی عذاب کا ذکر فرمایا ہے ، البتہ اہل ایمان کے لیے راحت کا ذکر سنت میں مذکور ہے ، عذاب قبر کا ذکر کم وبیش ستر (70) احادیث صحیحہ میں آتا ہے ، قبر میں دفن کیے جانے والے شخص کا ذکر تو عام ہے کہ دفن کے فورا بعد منکر نکیر نامی فرشتے قبر میں آکر مردے سے سوال و جواب کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس پر راحت یا تکلیف والی منزل ضرور آتی ہے ، اور اگر کسی شخص کو دفن ہی نہ کیا گیا ہو ، اسے جانوروں نے کھالیا ہو ، آگ نے جلا دیا ہو یا پانی میں غرق ہوگیا ہو ، اس کے ذرات ہوا میں اڑ گئے ہوں یا مٹی میں مل گئے ہوں ہر صورت میں سوال و جواب کی منزل ضرور آتی ہے مگر اس کی کیفیت کا علم ہمیں اس وقت نہیں ہوتا ، اس سارے مرحلے کا صحیح صحیح ادراک تو مرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے بہ خطرہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ مردوں کی سزا کی جو کیفیت میں دیکھ رہا ہوں وہ تمہیں بھی دیکھا دی جائے وہ ایسی ہولناک کیفیت ہے کہ اگر کوئی دیکھ لے تو تو مردوں کو دفن ہی نہ کرے ، حضور ﷺ نے عذاب قبر سے بچاؤ کی یہ دعا بھی تعلیم فرمایا ہے جو کہ نماز میں درود شریف کے بعد پڑی جانے والی دعاؤں میں شامل ہے ” اللھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذ بک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات “۔ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے ، مسیح دجال کے فتنہ سے ، اور زندگی اور موت کے فتنہ سے ۔ اور زندگی اور موت کے فتنہ سے ، صحیح حدیث میں آپ کا یہ فرمان بھی موجود ہے کہ قبروں میں تمہاری بہت بڑی آزمائش ہوگی اور دجال کے فتنہ کے وقت بھی ، لہذا جو شخص عذاب قبر کا انکار تاویل کے ساتھ کرتا ہے ، وہ گمراہ اور بدعتی ہے اور جو آدمی سرے سے ہی عذاب وثواب قبر کا منکر ہے اس پر کفر لازم آتا ہے ، یہ مسئلہ شفاعت کے مسئلہ کی مانند ہے کہ جو اس کا تاویل کے ساتھ انکار کرے وہ گمراہ اور بدعتی ہے اور جو مطلقا انکار کرتا ہے اس پر تکفیر کا فتوی لگتا ہے ۔ (قبر کا عذاب) عذاب قبر سے متعلق صحیح حدیث میں آتا ہے کہ بعض گنہگاروں پر قبر اس قدر سکڑتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں یہ ضغظ قبر کہلاتا ہے ، قبر میں منکر نکیر کے سوال و جواب کا ذکر بھی صحیح احادیث میں آتا ہے اور یہ بھی کہ مومن آدمی صحیح جواب دیتا ہے تو فرشتے اس کو تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آرام سے سو جاء برخلاف اس کے کافر ، مشرک یا بدعقیدہ آدمی صحیح جواب نہیں دیتا تو اس کو سزا ملتی ہے ، بعض روایات میں آتا ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو کانوں کے درمیان ہتھوڑے کے ساتھ اتنی شدید ضر لگاتے ہیں کہ اگر وہ ضرب کسی سخت ترین چٹان پر ماری جائے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے ، اس ضرب کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا ہر چیز سنتی ہے ، پھر بعض لوگوں پر ننانوے (99) سانپ مسلط کرنے گا ذکر بھی ملتا ہے جو اسے ڈستے رہتے ہیں بہرحال عذاب قبر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ، آیات قرآنی بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں ، لہذا اس پر یقین رکھنا چاہئے بعض معتزلہ قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کے حیثیت پتھر کی سی ہوتی ہے اور اس کے لیے سزا یا جزا کا کوئی اثر نہیں ہوتا ، مگر یہ نظریہ باطل ہے ۔ صحیح احادیث میں عذاب قبر میں تخفیف کا ذکر بھی ملتا ہے ، مثلا حضور ﷺ کی حیات مبارکہ میں اس قسم کے دو واقعات ملتے ہیں ، پہلا واقعہ یہ ہے کہ آپ بعض قبروں پر گزرے تو آپ نے ان پر دو سبز ٹہنیاں رکھوا دیں اور فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا ، مگر کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان میں سے ایک تو چغل خور تھا اور دوسرا شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا ، صحیح حدیث میں حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ پیشاب سے بچو کیونکہ عام طور پر عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے ۔ آپ کو دوسرا واقعہ دوران سفر کا ہے آپ نے حضرت جابر ؓ سے فرمایا کہ درخت سے دو شاخیں کاٹ کر ایک اس جگہ پر رکھ دو اور دوسری اس جگہ پر حضرت جابر ؓ نے ایسا ہی کردیا اور پھر دریافت کیا ، حضور ! اس کا کیا مطلب ؟ آپ نے فرمایا کہ ان جگہوں میں دو قبروں والوں کو سزا ہو رہی تھی اور میں نے چاہا کہ ان کے عذاب میں تخفیف کی سفارش کروں ، لہذا یہ دو ٹہنیاں رکھوا دی ہیں ۔ (عذاب کا احساس) یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد قبر میں جو عذاب ہوتا ہے یہ صرف روح کو ہوتا ہے یا اس میں جسم میں بھی شریک ہوتا ہے بعض حضرات تو صرف روح کے احساس عذاب کے قائل ہیں لیکن اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ روح کو تکلیف جسم کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے البتہ یہ اشکال باقی رہتا ہے کہ اگر کسی شخص کا جسم معدوم ہوچکا ہے ، مثلا کوئی درندہ کھا گیا یا جل کر راکھ ہوگیا تو اس صورت میں جسم اور روح کا تعلق کیسے قائم ہوتا ہے صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اگر انسانی جسم کے تمام عناصر بھی گل سڑ جائیں تب بھی اس کا کچھ نہ کچھ حصہ باقی رہتا ہے مثلا بخاری ، مسلم ، مسند احمد ، اور موطا امام مالک ، میں موجود ہے کہ انسان کی دمچی کی ہڈی ضروری باقی رہتی ہے اور پھر قیامت کو اسی سے انسان کا ڈھانچہ دوبارہ کھڑا کیا جائے گا ، بہرحال جسم کے کسی ایسے حصے کے ساتھ روح کا تعلق فی الجملہ قائم رہتا ہے جس کی وجہ سے جزاء یا سزا کے احساس کا تعلق اس مجموعہ کے ساتھ ہوتا ہے ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے انسان کے جسم کی اگر کسی ایک انگلی کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے الغرض ! عالم برزخ میں جزا یا سزا کا احساس روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ، مگر اس کو کوئی دوسرا آدمی دیکھ نہیں سکتا ۔ امام غزالی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد کے مطابق عذاب قبر کو تسلیم کرلے ، اگر ہم اس کی کیفیت معلوم کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں کیونکہ ہمارے پاس وہ آنکھیں نہیں جن کے ذریعے ہم عذاب وثواب کا مشاہدہ کرسکیں ، آپ اس کی مثال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے قریب ایک شخص سویا ہوا ہے ، اس کو خواب میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے جل رہا ہے ، ڈوب رہا ہے ، سانپ ڈس رہا ہے یا اس پر کوئی آفت آگئی ہے جس کی وجہ سے وہ خوفزدہ ہو کر کانپ رہا ہے اور بعض اوقات اس کی چیخیں بھی نکل جاتی ہیں مگر پاس والے آدمی کو اس کی تکلیف کا کچھ ادراک نہیں ہوتا اس طرح عذاب قبر کا ادراک اس جہاں میں رہنے والوں کو نہیں ہوتا ، بلکہ اس کو وہی محسوس کرتا ہے جو اس میں مبتلا ہوتا ہے ۔ مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) تفسیر مظہری میں بیان کرتے ہیں کہ اس دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کی ارواح تو علیین میں چلی جاتی ہیں اور کافروں کی ارواح سجین میں ، قرآن پاک میں دونوں کا ذکر موجود ہے ، اور ان کے اجسام تو قبروں میں ہوتے ہیں پھر ان روحوں کا تعلق اجسام کے ساتھ کیسے قائم رہتا ہے تو قاضی صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ روح اور جسم کے اس اتصال کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اسی اتصال کی وجہ سے جزا یا سزا کا احساس روح اور جسم کے مجموعے کو ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی بھائی کی قبر پر جا کر سلام کہتا ہے ، تو اہل قبر اس کو سنتا ہے اور اس کا جواب بھی دیتا ہے ، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر عالم کے احکام الگ الگ ہیں کان کے عالم کو آنکھ نہیں جان سکتی ، اور آنکھ کا عالم کان کے عالم سے بےبہرہ ہے ، اسی طرح عالم بززخ کے احوال کو عالم دنیا والے نہیں جان سکتے جب خود وہاں پہنچتے ہیں تو حقیقت حال واضح ہوتی ہے ۔ (بززخ دنیا کا تتمہ ہے) یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالم بزرخ کا تعلق عالم دنیا سے ہے یا عالم آخرت ہے ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ عالم برزخ اسی جہان دنیا کا تتمہ ہے اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ عالم برزخ کے واقعات اس جہان کی نسبت سے ایک باریک جالی یا پردے کے پیچھے پیش آ رہے ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے ، جب حشر برپا ہوگا اور یہ پردہ اتر جائے گا ، تو تمام چیزیں کھل کر سامنے آجائیں گی ، اس وقت عالم برزخ کا ادراک کوئی نہیں کرسکتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی چیز غیر معمولی طریقے سے سمجھا دے اس کی مثال خدا تعالیٰ کی رؤیت والی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے پروردگار کو اس جہان میں نہیں دیکھ سکتے ، جب تک کہ مر کر دوسرے جہاں میں نہ چلے جاؤ ۔ امام غزالی (رح) اس بات کو اس طرح سمجھاتے ہیں کہ تم اس کو تو تسلیم کرتے ہو کہ جبرائیل (علیہ السلام) حضور ﷺ پر نازل ہوتے تھے مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کی آنکھیں انکا مشاہدہ کرنے سے قاصر تھیں ، جب حضور ﷺ خود بتلاتے تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے تھے تو پھر پتہ چلتا تھا ، ایک موقعہ پر حضور ﷺ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس تشریف فرما تھے کہ جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور عرض کیا کہ میری طرف سے عائشہ ؓ کو بھی سلام کہہ دیجئے آپ نے یہ پیغام دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ حضور ! میری طرف سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو سلام کہہ دیں ، اور ساتھ یہ بھی کہا ” تری مالا تری “۔ حضور ! جو کچھ آپ دیکھتے ہیں وہ ہم تو نہیں دیکھ سکتے ، غرضیکہ ہر مومن نزول وحی پر ایمان رکھتا ہے مگر اسے دیکھ نہیں سکتا اسی طرح اگر وحی پر ایمان ہے تو پھر قبر میں فرشتوں کی آمد ، سوال و جواب اور جزا وسزا پر بھی ایمان رکھنا چاہئے ۔ بہرحال فرمایا کہ فرعونیوں کو عالم برزخ میں صبح وشام آگ پر پیش کیا جاتا ہے پھر جب قیامت برپا ہوگی ، جزا اور سزا کی منزل آئے گی تو فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان کو سخت عذاب میں داخل کر دو ، ان کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا ، اور یہ ان کے لیے قطعی اور دائمی سزا ہوگی ۔ (تابع اور متبوع کا مکالمہ) آگے اللہ تعالیٰ نے دوزخ میں جانے والے بعض لوگوں کے مکالمے کا ذکر کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذ یتحاجون فی النار “۔ اور جب کہ دوزخ میں پہنچنے والے آپس میں جھگڑا کریں گے (آیت) ” فیقول الضعفؤا للذین استکبروا “۔ پس کمزور لوگ مغرور اور متکبر لوگوں سے کہیں گے (آیت) ” انا کنا لکم تبعا “۔ ہم تو دنیا میں تمہارے تابع تھے تمہارا ہر حکم مانتے تھے ، تمہاری ہاں میں ہاں ملاتے تھے ۔ (آیت) ” فھل انتم مغنون عنا نصیبا من النار “۔ تو کیا آج تم دوزخ کے کچھ حصے سے ہمیں بچا سکتے ہو ؟ ہم دنیا میں تمہارے پیچھے لگ کر اس نتیجے کو پہنچے ہیں اب ہمارا کچھ تو دکھ بانٹو اور سزا کا کچھ حصہ اٹھا لو (آیت) ” قال الذین استکبروا “۔ اس وقت متکبر لوگ جواب دیں گے بھلا ہم تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں (آیت) ” انا کل فیھا “۔ آج تو ہم سب دوزخ میں پڑے ہیں اور برابر ہیں ، ہم تمہارا بوجھ کیسے اٹھا سکتے ہیں ؟ اور ساتھ یہ ہی کہیں گے (آیت) ” ان اللہ قد حکم بین العباد “۔ اب اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے اہل ایمان کو راحت کے مقام میں اور مجرموں کو یہاں پہنچ دیا ہے لہذا اب ہمارے اور تمہارے عذاب میں نہ تخفیف ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ دور ہو سکتا ہے ، اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی عذاب میں مبتلا رہنا پڑے گا ، (تخفیف عذاب کی درخواست) جب تابعین اپنے متبوعین سے مایوس ہوجائیں گے ، تو پھر جہنم کے داروغوں کو رجوع کریں گے (آیت) ” وقال الذین فی النار لخزنۃ جھنم “۔ اور آگ میں پڑے ہوئے لوگ جہنم کے داروغوں میں سے کہیں گے ۔ (آیت) ” ادعوا ربکم یخفف عنا یوما من العذاب “۔ کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے عذاب میں ایک دن کے لیے ہی تخفیف کر دے ، کم از کم ایک دن تو ہمیں اس مصیبت سے نجات ملے (آیت) ” قالوا اولم تک تاتیکم رسلکم بالبینت “۔ وہ جواب دیں گے ، کیا تمہارے پاس تمہارے رسول کھلی نشانیاں لے کر نہیں آئے تھے ؟ کیا انہوں نے تمہیں اللہ کے احکام شرائع اور دلائل نہیں پہنچائے تھے کہ تم ایمان لے آتے ؟ (آیت) ” قالوا بلی “۔ وہ کہیں گے کیوں نہیں ، اللہ کے رسول تو ہمارے پاس آئے تھے اور انہوں نے ہمیں ہر نیک وبد سے آگاہ کردیا تھا ، مگر یہ ہماری بدبختی تھی کہ ہم نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور کفر وشرک اور معاصی میں مبتلا رہے (آیت) ” قالوا فادعوا “۔ فرشتے کہیں گے ، پس اب پکارتے اور چیختے چلاتے رہو ، مگر کوئی شنوائی نہیں ہوگی ، (آیت) ” وما دعوا الکفرین ان فی ضلل “۔ اور کافروں کی پکار کا گمراہی یعنی ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا ان کے مسلسل چیخنے چلانے پر بھی عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی ، سورة المؤمنون میں بھی ایسا ہی مضمون گزر چکا ہے کہ مجرم لوگو کہیں گے کہ پروردگار ! ہماری کمبختی ہم پر غالب آگئی اور ہم راستے سے بھٹک گئے جس کی وجہ سے ہمیں دوزخ کا منہ دیکھنا پڑا ، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کریں گے کہ ہمارے پروردگار ! ہمیں یہاں سے نکال لے ، ہم آئندہ نافرمانی نہیں کریں گے ، مگر وہاں سے جواب آئے گا (آیت) ” قال اخسؤا فیھا ولا تکلمون “۔ (آیت : 108) دوزخ میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو ، اور مجھ سے کلام بھی نہ کرو ، میں تمہاری کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ مجرم لوگ ہزار سال تک رب العزت کی بارگاہ میں چیختے چلانے رہیں گے مگر اتنے عرصہ کے بعد یہ جواب آئے گا کہ مجھ سے کلام نہ کرو اور ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں پڑے رہو۔
Top