Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 70
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًا١ؕ كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْ١ۙ فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَۗ
لَقَدْ : بیشک اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَ : پختہ عہد بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَاَرْسَلْنَآ : اور ہم نے بھیجے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رُسُلًا : رسول (جمع) كُلَّمَا : جب بھی جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا تَهْوٰٓى : نہ چاہتے تھے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل فَرِيْقًا : ایک فریق كَذَّبُوْا : جھٹلایا وَفَرِيْقًا : اور ایک فریق يَّقْتُلُوْنَ : قتل کر ڈالتے
ہم نے بنی اسرائیل سے عہد بھی لیا اور ان کی طرف پیغمبر بھی بھیجے (لیکن) جب کوئی پیغمبر ان کے پاس ایسی باتیں لیکر آتا جن کو ان کے دل نہیں چاہتے تھے تو وہ (انبیاء کی) ایک جماعت کو تو جھٹلادیتے اور ایک جماعت کو قتل کردیتے تھے۔
(70 ۔ 71) ۔ اوپر ذکر تھا کہ یہود اگر پورے طور پر تورات کے پابند نہ ہوں گے تو ان کو راہ راست پر شمار نہ کیا جاوے گا ان آیتوں میں ان کے تورات پر قائم نہ رہنے کی تفصیل ذکر فرمائی ہے جس عہد کا ذکر ان آیتوں میں ہے یہ وہی عہد ہے جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیت { وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہُ } ( 2: 83) کی تفسیر میں گذرچکا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت نبی اللہ تعالیٰ نے تورات کے اس عہد کے قائم رکھنے کے لئے بھیجے۔ لیکن یہود نے تورات کے اکثر احکام کو چھوڑ کر بجائے ان احکام کے اپنی خواہش کے موافق ایجادی باتیں تراش رکھی تھیں جس نبی نے ان کو ان باتوں سے روکا اس سے انہوں نے مخالفت پیدا کر کے بعض نبیوں کو تو قتل کر ڈالا مثلاً حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور یحییٰ ( علیہ السلام) ان نبیوں میں سے ہیں جن کو یہود نے قتل کیا اور بعض نبیوں کو انہوں نے جھٹلایا جیسے مثلاً حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان ﷺ ۔ اپنی ایجادی باتوں کو یہود حکم الٰہی جانتے ہیں اس لئے ان کا یہ خیال ہے کہ ان باتوں کی پاسداری میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی نبی کو مار ڈالنا یا جھٹلانا کوئی خرابی یا گناہ کی بات نہیں ہے ایک دفعہ دل کے اندھے اور کانوں کے بہرے بن کر شعیب نبی کو قتل کیا پھر کچھ درست ہوگئے پھر اپنے پہلے ڈھنگ پر آکر حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) بن زکریا ( علیہ السلام) کو قتل کیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قتل کی فکر آخر کو فرمایا کہ ان کی یہ سب گناہ باتیں اللہ کی نگاہ میں ہیں وقت مقررہ پر ان کا کیا ان کے آگے آنے والا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ یہود کو دنیوی سزا تو جالوت اور بخت نصر وغیرہ کے ہاتھ سے مل چکی۔ عقبیٰ کی سزا بھی سب کی آنکھوں کے سامنے آنے والی ہے۔ ترمذی نسائی وغیرہ کی ابوہریرہ ؓ کی صحیح حدیث ایک جگہ گزرچکی ہے کہ کثرت گناہ سے آدمی کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے 1 ؎ جس کے سبب سے نہ وہ کوئی نصیحت کی بات کانوں سے دل لگا کر سنتا ہے نہ کسی نیک بات کا اس کے دل پر کچھ اثر ہوتا ہے دل کے اندھے اور کانوں کے بہرے لوگوں کی حالت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔
Top