Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 70
لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًا١ؕ كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُهُمْ١ۙ فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَ فَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَۗ
لَقَدْ : بیشک اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَ : پختہ عہد بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل وَاَرْسَلْنَآ : اور ہم نے بھیجے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف رُسُلًا : رسول (جمع) كُلَّمَا : جب بھی جَآءَهُمْ : آیا ان کے پاس رَسُوْلٌ : کوئی رسول بِمَا : اس کے ساتھ جو لَا تَهْوٰٓى : نہ چاہتے تھے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل فَرِيْقًا : ایک فریق كَذَّبُوْا : جھٹلایا وَفَرِيْقًا : اور ایک فریق يَّقْتُلُوْنَ : قتل کر ڈالتے
یقیناً ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کے پاس (بہت سے) پیغمبر بھیجے،239 ۔ جب جب کوئی پیغمبر ان کے پاس (ایسا) حکم لائے، جس کو ان کا جی نہیں چاہتا تھا تو بعض کو جھٹلاتے تھے اور بعض کو قتل ہی کر ڈالتے تھے،240 ۔
239 ۔ چناچہ قوم بنی اسرائیل کی تاریخ گویا انبیاء مرسلین ہی کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ (آیت) ” میثاق بنی اسرآء یل “۔ پر حاشیے پارۂ اول میں گزر چکے۔ یہ عہد توحید ہی سے متعلق تھا۔ 240 ۔ یعنی کم وبیش مخالفت تو اپنے سب ہی انبیاء کی کی، جو ذرا سا بھی کوئی حکم ان کی مرضی کے خلاف لے کر آئے، لیکن بعض کو تو تکذیب سے گزر کر ہلاک تک کرڈالا، یہود کے قتل انبیاء وغیرہ پر حاشیے پارۂ اول میں گزر چکے ہیں۔ انجیل میں یہ الزام اس سے کہیں زیادہ زور دار الفاظ میں دہرایا گیا ہے۔ ” اے سانپو، اے افعی کے بچو، تم جہنم کی سزا سے کیونکر بچو گے، اس لیے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں اور نقیبوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ ان سے بعض کو قتل کروگے اور صلیب پر چڑھاؤ گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے ماروگے اور شہر بہ شہر ستاتے پھرو گے “۔ (متی 32:34) ملاحظہ ہوں پارۂ اول کے حاشیے آیت نمبر 6 1 پر۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ سارے کبائر کی اصل اتباع ہوی ہے، اس لیے صوفیہ اس کے استیصال کی سخت کوشش کرتے رہتے ہیں۔
Top