Ahsan-ut-Tafaseer - Adh-Dhaariyat : 52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ
كَذٰلِكَ : اسی طرح مَآ اَتَى الَّذِيْنَ : نہیں آیا ان لوگوں کے پاس مِنْ قَبْلِهِمْ : جو ان سے پہلے تھے مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا قَالُوْا : مگر انہوں نے کہا سَاحِرٌ : جادوگر اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون
اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا وہ اس کو جادوگر یا دیوانہ کہتے
52۔ 55۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے صاحب شریعت نبیوں کا سلسلہ دنیا میں شروع ہو کر آنحضرت ﷺ پر وہ سلسلہ ختم ہوا۔ اور حضرت نوح ‘ حضرت ہود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت لوط ‘ حضرت شعیب کو جس طرح ان کی قوموں نے اور حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم نے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہود نے جھٹلایا اور دیوانہ جادوگر بتایا اس کا ذکر جگہ جگہ قرآن شریف میں گزر چکا ہے۔ اسی واسطے جب قریش نے آنحضرت ﷺ کو طرح طرح کی ایذا دی اور جھٹلایا اور جادوگر دیوانہ اور قرآن شریف اور معجزوں کو جادو کہنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وصیت کے طور پر جس طرح بڑے چھوٹوں کو ایک بات کہہ دیتے ہیں وہی حال ان نبیوں کے جھٹلانے والی قوموں کا ہے کہ ایک زبان ہو کر سب کے سب ایک ہی بات کہتے ہیں پھر فرمایا کہ وصیت تو ایک دوسرے کو کیا کریں گے ایک قوم عذاب الٰہی سے جب اجڑ چکی ہے جو اس کے بعد دوسری قوم پیدا ہوئی بلکہ ایک زبان ہو کر یہ سب کے سب اس لئے ایک ہی بات کہتے ہیں کہ یہ سرکش لوگ ہیں اور ان سب کا بہکانے والا شیطان ایک ہی ہے اس لئے وہ اگلے پچھلے سب کے کانوں میں ایک ہی بات پھونکتا ہے اور یہ سب ایک زبان ہو کر ایک ہی بات کہتے ہیں تو ہٹ آ ‘ ان کی طرف سے تجھ پر نہیں اولاہنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب باوجود ہر وقت کی نصیحت کے یہ لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو اے رسول اللہ کے ان کی گمراہی کا تم پر کچھ الزام نہیں ہے اللہ کو معلوم ہے کہ تم نے ان کو پوری نصیحت کردی ‘ اب تم زیادہ ان کے درپے نہ ہو ‘ اللہ ان سے خود سمجھ لے گا۔ مفسرین 1 ؎ نے کہا کہ جب آیت کا یہ ٹکڑا نازل ہوا تو آنحضرت ﷺ اور صحابہ کو بڑا رنج ہوا کیونکہ انہوں نے جانا شاید اب عذاب آئے گا لیکن آئندہ کی آیت میں وعظ نصیحت کا حکم نازل ہوجانے سے پھر سب کی تسکین ہوگئی۔ مسند 2 ؎ امام احمد کی حضرت ابوامامہ ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کی نشانی یہ ہے کہ اس کو دین کی اور نصیحت کی بات اچھی معلوم ہوتی ہے اور جو باتیں دین میں منع ہیں ان سے اس کا دل گھبرانے لگتا ہے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا کہ اللہ کے رسول کی نصیحت سے فائدہ ایمان والوں کو ہی ہے یہ حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے کیونکہ جس چیز کو جو شخص اچھا جانے گا وہی اس سے فائدہ اٹھائے گا ایک شخص ایک چیز کو اچھا ہی نہیں جانتا تو وہ اس چیز کو کلام میں کیا لائے گا اور اس سے فائدہ کیا اٹھائے گا۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 116 ج 6۔ ) (2 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان فصل ثالث )
Top