Tafseer-Ibne-Abbas - Adh-Dhaariyat : 52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ
كَذٰلِكَ : اسی طرح مَآ اَتَى الَّذِيْنَ : نہیں آیا ان لوگوں کے پاس مِنْ قَبْلِهِمْ : جو ان سے پہلے تھے مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا قَالُوْا : مگر انہوں نے کہا سَاحِرٌ : جادوگر اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون
اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کے پاس جو پیغمبر آتا وہ اس کو جادوگر یا دیوانہ کہتے
(52۔ 53) اور جیسا کہ آپ کی قوم آپ کو جادوگر یا مجنوں کہتی ہے اسی طرح جو کافر لوگ آپ کی قوم سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس کوئی پیغمبر ایسا نہیں آیا جس کو انہوں نے جادوگر یا مجنوں نہ کہا ہو کیا ہر ایک قوم اس بات میں ایک دوسرے کی موافقت کرتی چلی آرہی ہے کہ اپنے اپنے رسولوں کو ان ہی الفاظ کے ساتھ یاد کریں بلکہ یہ سب کے سب کافر ہیں۔ شان نزول : فَتَوَلَّ عَنْهُمْ۔ وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ (الخ) ابن منبع اور ابن راہویہ اور ہثیم بن کلیب نے اپنی مسانید میں بواسطہ مجاہد حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَآ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ تو ہم میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہیں رہا جسے اپنی ہلاکت کا یقین نہ ہوگیا ہو کیونکہ رسول اکرم کو ہم سے عدم التفات کا حکم ہوگیا تھا اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ جس سے ہمارے دلوں کو اطمینان اور خوشی ہوئی۔ اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کیا ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی فَتَوَلَّ عَنْهُمْ (الخ) تو یہ آیت صحابہ کرام کے لیے بہت سخت پریشانی کا باعث ہوئی اور وہ سمجھے کہ اب وحی منقطع ہوجائے گی اور عذاب نازل ہوگا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۔
Top