Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 52
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌۚ
كَذٰلِكَ : اسی طرح مَآ اَتَى الَّذِيْنَ : نہیں آیا ان لوگوں کے پاس مِنْ قَبْلِهِمْ : جو ان سے پہلے تھے مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا قَالُوْا : مگر انہوں نے کہا سَاحِرٌ : جادوگر اَوْ مَجْنُوْنٌ : یا مجنون
یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔
کذلک ما ........ بملوم (25) وذکر ........ المؤمنین (55) (15 : 25 تا 55) ” یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے ؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔ پس اے نبی ان سے رخ پھیر لو تم پر کچھ ملامت نہیں۔ البتہ نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لئے نافع ہے “۔ تمام رسولوں کے مخالفین اور مکذبین کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ گمراہوں نے ہمیشہ رسولوں کی دعوت کے مقابلے میں یکساں رد عمل کا اظہار کیا۔ کذلک ........ او مجنون (15 : 25) ” یونہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون “۔ جس طرح مشرکین مکہ کہہ رہے ہیں۔ گویا اگلے پچھلے کافروں نے آپس میں مشورہ کرلیا ہو۔ انہوں نے آپس میں مشورہ تو نہیں کیا مگر سرکشی ، گمراہی ، ظلم کا مزاج ہی ایک ہوتا ہے۔ اس لئے اگلے پچھلے اس روش پر جمع ہوگئے ہیں۔ منکرین کے مسلسل ایک ہی موقف سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہی ہے کہ رسول ﷺ ان لوگوں کی تکذیب کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ ان لوگوں نے اس رویہ پر گویا اتفاق کرلیا ہے لہٰذا رسول ﷺ اس پر ملامت زدہ نہیں ہیں۔ ان کو چاہئے کہ کوئی پرواہ نہ کریں۔ وہ تو محض یاد دہانی کرانے والے ہیں اور یاد دہانی وہ جاری رکھیں۔ اگرچہ لوگ اعتراض کریں اور منہ موڑیں۔
Top