Ahsan-ut-Tafaseer - At-Tur : 35
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ
اَمْ خُلِقُوْا : یا وہ پیدا کیے گئے مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ : بغیر کسی چیز کے اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ : یا وہ خالق ہیں۔ بنانے والے ہیں
کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں
35۔ 43۔ قد افلح المومنون میں گزر چکا ہے کہ مشرک لوگ اللہ کے خالق اور رزاق ہونے کے قائل تھے صرف اللہ کی توحید میں ان لوگوں نے فتور ڈال رکھا تھا۔ اس لئے اللہ کے خالق اور رازق ہونے میں جتنی آیتیں قرآن شریف میں ہیں سب استفسار کے طور پر ہیں۔ مثلاً ھل من خالق غیر اللہ وغیرہ۔ یہ استفسار ایسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں کسی واقف کار آدمی سے اس کے قائل کرنے کے لئے پوچھا جائے کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ یہ بات یوں ہے۔ ان آیتوں میں اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ اگرچہ اللہ کے خالق و رازق ہونے کے قائل ہیں مگر جب اللہ کے حکم کو نہیں مانتے تو ان کی سرکشی تو یہ جتلاتی ہے کہ یا تو یہ لوگ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں یا انہوں نے اپنے آپ کو خود پیدا کرلیا ہے۔ یہ لوگ دنیا میں بڑے عقل مند کہلاتے ہیں۔ ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کوئی کام بغیر کسی کام کے کرنے والے کے نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ خودبخود کیونکر پیدا ہوگئے۔ اسی طرح پیدا ہونے سے پہلے یہ لوگ بالکل معدوم تھے پھر معدوم شخص اپنے آپ کو کیونکر موجود کرسکتا ہے جب یہ دونوں باتیں عقل کے خلاف ہیں اور اللہ کے خالق رازق ہونے کے یہ لوگ قائل ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ بھی تو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ جو تمہارا خالق و رازق ہے اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ پھر فرمایا اللہ کے خالق و رازق ہونے کی شہادت میں تو آسمان و زمیان ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے موجود ہیں انہوں نے یا ان کے جھوٹے معبودوں نے کوئی آسمان و زمین پیدا کیا ہو تو لائیں دکھلائی۔ اصل یہ ہے کہ ان کے جی میں عقبیٰ کا یقین نہیں ہے ورنہ اپنی عاقبت یہ ایسی خراب نہ کرتے۔ پھر فرمایا اللہ کے رسول کی بددعا سے ان پر رزق کی تنگی ہوئی اور سخت قحط پڑا وہ تو ان کو معلوم ہے ان کے یا ان کے جھوٹے معبودوں کے اختیار میں اللہ تعالیٰ کے خزانے تھے یا اللہ تعالیٰ کے انتظام کی داروغائی ان کو یا ان کے جھوٹے معبودوں کو تھی تو پھر انہوں نے اس قحط کو کیوں نہیں رفع کیا۔ جب ان کے جھوٹے معبودوں سے اتنا بھی نہ ہوسکا تو پھر ان کو اللہ کے شریک ٹھہرانے کا کیا حق ہے۔ صحیحین 1 ؎ میں عبد اللہ بن مسعود کی روایت سے اس قحط کے قصہ کا ذکر آیا ہے پھر فرمایا جس شرک کو انہوں نے حق اور ملت ابراہیمی ٹھہرا رکھا ہے اللہ نے جو اپنے رسول سے وحی بھیجی ہے اس میں تو اس کی جابجا مذمت ہے پھر ان کے پاس کوئی آسمان تک سیڑھی ہے جس سے آسمان پر چڑھ کر انہوں نے یہ جان لیا کہ جس طریقہ پر یہ لوگ ہیں وہ حق ہے اگر ایسا ہے تو اس کو ثابت کیا جائے ورنہ اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان کر شرک کو چھوڑا جائے۔ پھر فرمایا ان لوگوں کو اپنی عقل پر یہاں تک بھروسہ ہے کہ اپنی عقلی باتوں سے آسمانی وحی کے مقابلہ کو مستعد ہیں۔ کیا عقل مند ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اپنی اولاد میں جب بیٹی ہو تو اس کو برا سمجھتے ہیں اور اللہ کے فرشتوں کو یہ لوگ اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں پھر فرمایا کہ کیا اللہ کے رسول اللہ کا حکم سنانے پر ان لوگوں سے کچھ اجرت مانگتے ہیں کہ اس چٹی کے بوجھ سے یہ لوگ اللہ کا حکم سننے سے بھاگتے ہیں۔ پھر فرمایا کیا ان کے پاس لوح محفوظ ہے کہ اس میں سے اللہ کی مرضی کی باتیں یہ لکھ لیتے ہیں اور ان کو اپنا دین ٹھہراتے ہیں اور وحی آسمانی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے رسول پر جو دین کی باتیں اترتی ہیں ان کو نہیں مانتے پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو اللہ کے رسول کی وفات کے منتظر ہیں تو کیا اللہ کے رسول کے ساتھ کوئی ایسا فریب کرنے والے ہیں جس سے اللہ کے رسول کو کچھ ضرر پہنچے گا۔ اگر ایسا کریں گے تو یہ بات ان لوگوں کو یاد رہے کہ ان کا وہ فریب ان پر ہی الٹ پڑے گا اللہ کے رسول کو کچھ ضرر اس سے نہ پہنچے گا یہ آیت قرآن شریف کے کلام الٰہی اور آنحضرت ﷺ کے رسول ہونے کی دلیل ہے کیونکہ یہ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ قریش نے دارالندوہ میں جمع ہو کر آنحضرت ﷺ پر تلواروں سے وار کرنے کا فریب جو سوچا تھا وہ عین ہجرت کی رات کا مشورہ تھا۔ اور یہ آیت ہجرت سے پہلے کی مکی ہے۔ ہجرت کی رات کے بعد جو حصہ قرآن شریف کا نازل ہوا وہ مکی نہیں کہلاتا غرض ہجرت کی رات جو کچھ ہونے والا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس کی خبر اس مکی آیت میں پہلے سے ہی دی ہے جو ایک معجزہ ہے۔ سورة انفال میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ قریش کے جتنے آدمی اس دارالندوہ کے مشورہ میں شریک تھے بدر کی لڑائی میں وہ سب مارے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو فرمایا تھا کہ اللہ کے رسول کے مخالفوں کا فریب ان پر ہی الٹ پڑے گا۔ آخر کو ویسا ہی ہوا کہ بجائے اس کے کہ وہ مخالف لوگ اللہ کے رسول پر تلواروں کا حملہ کرتے خود ان ہی مخالفوں پر تلواروں کا حملہ ہو کر وہ سیدھے جہنم کو چلے گئے۔ پھر فرمایا کیا اللہ کے سوا ان لوگوں کا کوئی جھوٹا معبود ایسا ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے ان لوگوں کو چھڑائے پھر اخیر کو فرمایا اللہ کی شان ان سب شرک کی باتوں سے بالاتر ہے اور مشرک لوگ اپنی ان شرک کی باتوں کا خمیازہ ایک دن بھگتنے والے ہیں۔ صحیح 1 ؎ بخاری مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپرگزر چکی ہے جس حاصل یہ ہے کہ جس دوزخی پر کم سے کم دوزخ کا عذاب ہوگا اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے شخص تیرے پاس ساری دنیا ہو تو اس کے بدلے میں دے کر اس عذاب سے نجات چاہے گا وہ کہے گا کہ ہاں اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے بدنصیب تجھ سے تو دنیا میں یہ ایک چھوٹی سی بات چاہی گئی تھی کہ تو شرک نہ کیجئومگر تو نے نہ مانا اب اللہ کا وعدہ ہے کہ مشرک کی نجات نہیں ہوسکتی یہ حدیث اور اس قسم کی اور حدیثیں آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر ہیں کہ مشرک کو اللہ کے عذاب سے کوئی چیز نہیں چھڑا سکتی۔
Top