Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 35
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ
اَمْ خُلِقُوْا : یا وہ پیدا کیے گئے مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ : بغیر کسی چیز کے اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ : یا وہ خالق ہیں۔ بنانے والے ہیں
یا وہ کسی چیز کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں، یا وہ (خود) پیدا کرنے والے ہیں ؟
(1) ام خلفوا من غیر شیء …: اس سے پہلے تین سوال یہ ثابت کرنے کے لئے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول اور قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے، اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قدرت کاملہ کو ثابتک رنے کی بات کا آغاز فرمایا۔ یعنی محمد ﷺ نے ان کے سامنے جو دعوت پیش کی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا خلاق ہے، اس لئے تمہیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ آخر اس پر ان کے بگڑنے کی کیا کوئی معقول وجہ ہے ؟ اگر یہ رب تعالیٰ کو خلاق نہیں مانتے تو بتائیں کہ کیا وہ کسی بنانے والے کے بغیر ہی بن گئے ہیں ؟ ظاہر ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے۔ یا پھر انہوں نے اپنے آپ کو خود بن الیا ہے ؟ یہ پہلی بات سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی چیز خلاق بھی ہو اور مخلوق بھی۔ یا پھر یہ بتائیں کہ یہ آسمان و زمین انہوں نے بنائے ہیں ؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں، کیونکہ یہ کائنات اس وقت کی بنی ہوئی ہے جب ان لوگوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین سوال کئے ہیں جن کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بالکل ظاہر ہے کہ نہ یہ لوگ کسی بنانے والے کے بغیر بنے ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو خود بنانے والے ہیں اور نہ کائنات ان کی بنائی ہوئی ہے، بلکہ انہیں اور ساری کائنات کو بنانے والا کوئی اور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس حقیقت کو وہ بھی مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا :(ولئن سالتھم من خلقھم لیقولن اللہ فانی یوفکون) (الزخرف : 88)”اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ، پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔“ اور فرمایا :(ولئن سالتھم من خلق السموت والارض لیقولن اللہ) (لقمان : 25)”اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔“ (2) بل لایوقنون : یعنی بات یہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خلاق نہیں مانتے اور اس کا اقرار نہیں کرتے، بلکہ اصل یہ ہے کہ اقرار کے باوجود انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے، کیونکہ اگر انہی واقعی یقین ہوتا کہ ہمارا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو اسی کی عبادت کرتے ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور نہ اس کی طرف دعوت دینے والے کی اس طرح مخالفت کرتے۔
Top