Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
اور دیکھو یہ لوگ قرآن کریم سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی دور بھاگتے ہیں اور وہ ایسا کر کے کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے اپنے ہی کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور اس کا شعور نہیں رکھتے
یہ لوگ قرآن کریم سے دور بھاگتے ہیں اور دوسروں کو بھی روکتے ہیں : 41: ” یتنؤں “ وہ دور بھاگتے ہیں۔ اس کی اصل ن ا ی ہے نئی دور بھاگنا ۔ الگ ہونا ۔ فرمایا کفار مکہ اور یہود و نصاریٰ نے جو رویہ قرآن کریم اور پیغمبر اسلام ﷺ کے ساتھ روا رکھا وہ بڑا ہی عجیب ہے کفار مکہ آپ ﷺ کے خاندان اور برادری کے لوگ تھے وہ آپ ﷺ کی بچین سے لے کر جوانی تک کی حالت کو اچھی طرح جانتے تھے اور آپ ﷺ کی سچائی کی مثالیں بیان کیا کرتے تھے۔ اس طرح اہل کتاب آپ کے حسن اخلاق اور زندگی کے دوسرے مختلف واقعات سے آپ ﷺ کی نبوت کو اچھی طرح پہچانتے تھے لیکن ان سب کو کیا ہوا کہ آپ ﷺ نے جب اللہ کے دین کی دعوت پیش کی تو سارے کے سارے مخالف ہوگئے ۔ لوگوں کو آپ ﷺ پر نازل شدہ کلام کو سننے سے منع کرتے اور سختی سے روکتے تھے کہ اس کا بیان اللہ کا کلام نہیں بلکہ ایک جادو کا کلام ہے جو اس کو سنے گا وہ خود سحر زدہ ہوجائے گا۔ آپ ﷺ کو ساحر اور جادوگر کہنے میں ذرا خوف نہ کھاتے کہ یہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اس طرح تو ہمارے اپنے کہے کی بھی کھلی تردید ہوتی ہے کہ کل تک ہم جس کو الامین ، الصادق کہا کرتے تھے آج وہ جادوگر کے سح ہوگیا ؟ جس شخص نے کسی انسان کے بارے میں آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹ بول سکتا ہے۔ اہل کتاب جن کی کتابوں میں رسول اللہ ﷺ کی ذات اور رسالت کے سارے نشانات ملتے تھے انہوں نے اپنی کتابوں کی پروانہ کرتے ہوتے کس قدر ڈھٹائی سے کام لیا کہ نہ تو خود قرآن کریم کو اللہ کا کلام اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا رسول مانا اور نہ ہی دوسروں کو ماننے دیا بلکہ خود بھی رکے اور دوسروں کو رولنے کا باعث بھی ہوئے فرمایا اچھا اگر یہ لوگ ” قرآن کریم سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں اور خود بھی دور بھاگتے ہیں تو یاد رکھو کہ وہ ایسا کر کے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے بلکہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور اس ہلاکت میں پڑنے کا شعور نہیں رکھتے۔ “ شعور کا تعلق عقل وفکر سے ہے بلکہ عقل وفکر ہی کا دوسرا نام شعور ہے تو یہ لوگ ایسا کر کے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ رہے بلکہ اپنا نقصان کر رہے ہیں۔
Top