Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ankaboot : 37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يُّنَزِّلَ : اتارے اٰيَةً : کوئی نشانی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور کہتے ہیں کہ ان پر ان کے پروردگار کے پاس کے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی ؟ کہہ دو کہ خدا نشانی اتار نے پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(37 ۔ 39) ۔ اوپر ذکر تھا کہ اہل مکہ میں سے جو لوگ علم ازلی میں گمراہ ٹھہر چکے ہیں ان کے حق میں کوئی معجزہ مفید نہیں ان آیتوں میں فرمایا کہ ان میں کے بعض جلد باز سرکش لوگ گھڑ ی گھڑی معجزہ کا تقاضا جو کرتے ہیں ان کو جواب دیا جاوے کہ اللہ کی قدرت سے تو کوئی معجزہ بعید نہیں ہے لیکن عادت الٰہی کے یوں جاری ہے کہ کسی قوم کی خواہش کے موافق اللہ کے رسول سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا اور پھر وہ قوم راہ راست پر نہ آوے تو قوم ثمود کی طرح وہ قوم غارت ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ اس عادت الٰہی سے واقف نہیں اس لئے یہ گھڑی گھڑی معجزہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اگر یہ لوگ قدرت الٰہی کا نمونہ دیکھنے کے لئے معجزہ چاہتے ہیں تو آسمان کی مخلوقات کا نمونہ ٹھہرانے کے لئے کافی ہیں جن میں ہر ایک کی حالت کو اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جانوروں پر شرع کی تو کچھ تکلیف نہیں ہے اس لئے عذاب وثواب کے واسطے تو ان کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جاوے گا ہاں کسی زور آور جانور نے کسی کمزور جانور پر کچھ زیادتی کی ہوگئی تو اس کے انصاف کے لئے ان کو بھی دوبارہ زندہ کیا جاوے گا اس میں منکر حشر انسان کو یہ تنبیہ ہے کہ انصاف کے لئے جب جانوروں تک کو دوبارہ زندہ کیا جاوے گا تو باوجود حرام حلال کی تکلیف شرعی کے حشر کا جو لوگ انکار کرتے وہ بڑے نادان ہیں اسی واسطے فرمایا کہ ایسے لوگ حق بات کے سننے سے گویا بہرے اور کلمہ توحید زبان پر لانے سے گونگے اور کفر کے طرح طرح کے اندھیرے میں نور ایمانی سے دور پڑے ہوئے ہیں جس کا سبب یہ ہے کہ علم ازلی کے موافق ہر ایک کا راہ راست پر آنا اور نہ آنا اللہ کے ہاتھ ہے صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی سینگ والی بکری بغیر سینگ والی بکری کے سینگ مار دیوے گی تو اس کا بدلہ بھی قیامت کے دن لیا جاوے گا 2 ؎۔ یہ حدیث انصاف کے لئے جانوروں کے دوبارہ زندہ ہونے کی گویا تفسیر ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ قول جو مشہور ہے کہ جانوروں کا مر کر اللہ تعالیٰ کے پاس اکٹھے ہونا یہی انکا حشر ہے 1 ؎۔ اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جن جانوروں کے ذمہ کچھ مؤاخذہ نہیں وہ دوبارہ زندہ نہ ہوں گے ورنہ جن جانوروں کے ذمہ کچھ مؤاخذہ ہے ان کا دوبارہ زندہ ہونا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث اوپر گذری 2 ؎ جس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی نصیحت کی مثال مینہ کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی فرمائی وہ حدیث بھی گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بری زمین کو جس طرح مینہ برسنے سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اسی طرح ازلی بد لوگوں کو بڑے سے بڑا معجزہ دیکھنے سے کچھ فائدہ نہیں پہنچتا چناچہ اہل مکہ نے شق المقر جیسا معجزہ دیکھا اور اس کو جادو بتلایا۔
Top