Tafheem-ul-Quran - Al-An'aam : 37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يُّنَزِّلَ : اتارے اٰيَةً : کوئی نشانی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
ہ لوگ کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اس کے ربّ کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری؟ کہو، اللہ نشانی اتارنے کی پُوری قدرت رکھتا ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مُبتلا ہیں۔26
سورة الْاَنْعَام 25 سننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں، جنہوں نے اپنی عقل و فکر کو معطل نہیں کردیا ہے، اور جنھوں نے اپنے دل کے دروازوں پر تعصب اور جمود کے قفل نہیں چڑھا دیے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں مردہ وہ لوگ ہیں جو لکیر کے فقیر بنے اندھوں کی طرح چلے جا رہے ہیں اور اس لکیر سے ہٹ کر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، خواہ وہ صریح حق ہی کیوں نہ ہو۔ سورة الْاَنْعَام 26 نشانی سے مراد محسوس معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ معجزہ نہ دکھائے جانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس کو دکھانے سے عاجز ہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے جسے یہ لوگ محض اپنی نادانی سے نہیں سمجھتے۔
Top