Baseerat-e-Quran - Al-An'aam : 37
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ اٰیَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَةً وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں اتاری گئی عَلَيْهِ : اس پر اٰيَةٌ : کوئی نشانی مِّنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَادِرٌ : قادر عَلٰٓي : پر اَنْ : کہ يُّنَزِّلَ : اتارے اٰيَةً : کوئی نشانی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
وہ منکر کہتے ہیں کہ اس پر ( نبی ﷺ پر) اس کے رب کی طرف سے کیوں کوئی معجزہ نازل نہیں ہوا۔ کہہ دیجئے اللہ کو معجزہ بھیجنے کی ہر طرح قدر ت ہے لیکن (فرمائش کرنے والوں میں) اکثریت نادانوں کی ہے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 37 تا 41 : نزل (نازل کیا گیا) دآ بۃ (زمین میں رینگ کر چلنے والے جاندار) طائر (پرندہ) جناحیہ (جناح) پر۔ اڑنے کے بازو) ‘ امم (امتیں۔ جماعتیں) امثالکم ( تم جیسے) من یشاء اللہ (جسے اللہ چاہتا ہے) ‘ تدعون ( تم پکارتے ہو) یکشف (وہ کھول دے گا۔ کھولتا ہے) ‘ تنسون ( تم بھول جاتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 37 تا 41 : ان آیات میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ جو کفار اور مشرکین نئے نئے معجزات اور نشانیوں کی فرمائشیں کررہے ہیں ‘ یہ ایمان لانے کی خاطر نہیں بلکہ بات ٹالنے اور بہانے تراشنے کی خاطر ہے اگر ان کی فرمائش پوری کردی جائے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں اس کے بعد یہ میزد فرمائشیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو معجزہ اور نشانی بھیجنے کی ہر طرح قدرت ہے جیسا کہ وہ اپنے معجزے بھیجتارہا ہے لیکن مزید معجزہ بھیجنا اس کی تکوینی مصلحت نہیں ہے۔ سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ جو لوگ مزید معجزہ کی فرمائش کررہے ہیں اگر وہ پوری کردی جائے اور پھر بھی وہ ایمان نہ لائیں تو ان کو شدید ترین سزادی جائیگی۔ یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ فرمائش کرنے والے اکثر و بیشتر نادا ان ‘ احمق ‘ اور جاہل ہیں۔ ان کے کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنی بات بدلنے والا نہیں ہے۔ یہ ایمان لانا چاہیں تو بہت سارے معجزے موجود ہیں۔ قرآن ہے۔ خود نبی ﷺ کی سیرت پاک اور اعلی کردار ہے۔ صحابہ کرام کی سیرت و کردار ہے۔ قرآنی پیشن گوئیاں ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے چاروں طرف جو جاندار اور بےجان چیزیں ہیں یہ سب قدرت کے معجزات ہی تو ہیں۔ کس طرح وجود میں لائی گئی ہیں ؟ کس طرح زندہ رکھی جارہی ہیں ؟ کس قانون اور نظام کے تحت جکڑی ہوئی ہیں ؟ کون سا مقصدحیات پوراکررہی ہیں ؟ کون رزق دے رہا ہے ؟ کون اڑارہا ہے یا تیرا رہا ہے یا چلارہا ہے ؟ ان میں سے ایک ایک چیز پر اگر غور کیا جائے تو اللہ کی شان صاف نظر آجاتی ہے۔ سائنس اللہ کی قدرت پر تحقیق کرتی ہے۔ ہر ہ قدم پر اس کو ہزاروں معجزات نظر آتے ہیں لیکن کافر غور کرنے سے دور بھاگتا ہے کہ آخر انہیں اس طرح کس نے بنایا اور کیوں بنایا۔ اسی لئے بیشتر سائنس دان ایمان سے محروم رہتے ہیں الا ماشاء اللہ۔ وہ پہلا شخص جس نے چاند قر قد رکھا یعنی نیل آرم اسٹرانگ ‘ اپنے خلائی سفر سے واپسی کے بعد یہی سوچنے لگا کہ خلائیات اور طبیعات کے وہ اصول کس نے بنائے جن کی بنیاد پر یہ سفر کامیا ہوسکا اور کیوں بنائے ہیں ؟ اس سوچ نے اس کے دل کو ایمان سے لبریز کردیا اور وہ مسلمان ہوگیا۔ لیکن اس سفر میں اسے اور دوسرے خلابازوں کو بھیجنے والے ہزاروں سائنس داں ‘ انجینئر ‘ میکانک کافر کے کافر ہی رہ گئے چونکہ انہوں نے اس پہلو سے غور نہیں کیا۔ یہی حال مکہ کے ان کفار اور جاہلین کا تھا۔ وہ ” کون اور کیوں “ پر غور کرتے تو قدم قدم پر معجزات ہی معجزت پالیتے۔ انفس و آفاق ہی کی کیا خصوصیت ہے ‘ انسان خود اپنی جسمانی ‘ ذہنی ‘ عقلی ‘ مشینریوں پر غور کرے تو اللہ کو پاسکتا ہے۔ اوپر کی مثال وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیل آرم اسٹرانگ کو ایمان کی توفیق بخشی ‘ بقیہ سب کو اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیا۔ حضور ﷺ کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے ان ہی فطرتی معجزات کو دیکھ کر ایمان قبول کیا۔ کچھ وہ بھی تھے جن پر کوئی آفت اور مصیبت ٹوٹی اور مدد کے لئے ان کے دلوں نے اللہ ہی کو پکارا۔ کتنے کٹر سے کٹر منافق اور کافر بیماری میں ‘ خصوصاً موت کی بیماری میں ‘ اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں پکارتے۔ عکرمہ بن ابی جہل ایک جہاز پر تھے کہ شدید طوفان آگیا۔ سارے مسافروں نے اللہ ہی کو پکارا۔ جب جہاز سلامتی سے ساحل پر آگیا تو حضرت عکرمہ سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے۔ اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے اور تمام زندگی جہاد کرتے رہے۔ ایسی مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ایمان کی چنگاری ہر دل میں موجود ہے لیکن دنیا کے مفادات اور اندھی تقلید سے بجھی سی رہتی ہے۔ صرف ذرا اسکو ہوا د ینے کی ضرورت ہے پھر وہی چنگاری شعلہ بن کر جایا کرتی ہے۔
Top