Al-Quran-al-Kareem - Ibrahim : 26
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ اِ۟جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ
وَمَثَلُ : اور مثال كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ : ناپاک بات كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ : مانند درخت ناپاک اجْتُثَّتْ : اکھاڑ دیا گیا مِنْ : سے فَوْقِ : اوپر الْاَرْضِ : زمین مَا لَهَا : نہیں اس کے لیے مِنْ قَرَارٍ : کچھ بھی قرار
اور گندی بات کی مثال ایک گندے پودے کی طرح ہے، جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا گیا، اس کے لیے کچھ بھی قرار نہیں۔
وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ۔۔ : اور خبیث کلمہ (گندی بات) سے مراد کفر و شرک کی بات ہے۔ اس کی مثال اس بےکار پودے کی ہے جسے جڑ سے اکھیڑ پھینک دیا گیا ہو اور وہ اتنا کمزور ہو کہ اس کی جڑ زمین میں قائم ہی نہ رہ سکتی ہو۔ معمولی سا ہوا کا جھونکا ہی اسے اکھیڑ پھینکنے کے لیے کافی ہو۔ اسی طرح کلمہ کفر دنیا یا آخرت میں ہر طرح بےکار ہے، کسی کام نہیں آئے گا۔ انس ؓ نے اس سے مراد حنظل (تماں، اندرائن) لیا ہے۔ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورة إبراہیم : 3119 ] البتہ نبی کریم ﷺ سے انس ؓ کی یہ روایت مرفوعاً ثابت نہیں۔ [ ضعیف سنن الترمذی للألبانی : 3119 ] طنطاوی نے فرمایا، یہ صرف بطور مثال ایک فرضی پودا ہے جس کا حقیقت میں وجود نہیں، صرف سمجھانے کے لیے اسے بیان کیا گیا ہے۔ تفسیر طبری میں ابن عباس ؓ سے یہ قول مذکور ہے، مگر اس میں قابوس بن ابی ظبیان ایک راوی ضعیف ہے۔ کیونکہ تماں ہو یا اور کوئی پودا بہرحال اس کے پھر بھی کچھ نہ کچھ غذائی نہ سہی دوائی فائدے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی بےکار فرضی پودے والا حال شرک و کفر کا ہے جس کی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے نہ دل پر اس کا اثر ہوتا ہے، نہ اس کے ساتھ کوئی عمل قبول ہوتا ہے۔ بودا اتنا ہوتا ہے کہ ذرا سے غور و فکر سے اس کا بےحقیقت ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ کافر کا کوئی عمل نہ آسمان کی طرف چڑھتا ہے نہ اللہ کے ہاں قبول ہوتا ہے۔ یہ تفسیر مناسب حال معلوم ہوتی ہے، کیونکہ کفر و شرک کا حقیقی وجود ہے ہی نہیں، بلکہ یہ صرف وہم و گمان کی پیروی کا نام ہے، اس لیے اس کی مثال بھی ایسے ہی پودے سے مناسب ہے جس کا وجود فرضی ہو۔
Top