Al-Quran-al-Kareem - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
اور وہ ان (معبودوں) کے لیے جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے، ایک حصہ اس میں سے مقرر کرتے ہیں جو ہم نے انھیں دیا ہے۔ اللہ کی قسم ! تم اس کے بارے میں ضرور ہی پوچھے جاؤ گے جو تم جھوٹ باندھتے تھے۔
وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ۔۔ :”لَا يَعْلَمُوْنَ“ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ مشرک لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق کا حصہ ان خداؤں کے لیے مقرر کردیتے ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے، کیونکہ عالم الغیب والشہادہ تو صرف اللہ ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے مقرر کردیتے ہیں جن کے متعلق یہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ انھیں ان کی حقیقت معلوم ہے نہ ان کا بےاختیار ہونا، محض گمان اور سنی سنائی باتوں پر بنیاد رکھ کر ہمارا دیا ہوا ان کے نام کردیتے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (36 تا 38) اور سورة یونس (66) شروع آیت میں ان مشرکین کا ذکر سارے کا سارا غائب کے صیغوں کے ساتھ کرنے کے بعد آخر میں (بطور التفات) انھیں براہ راست ڈانٹنے کے لیے مخاطب کرلیا اور قسم کھا کر فرمایا کہ مجھے اپنی قسم کہ تم جو کچھ طوفان باندھتے رہے ہو ہر صورت اس کے متعلق پوچھے جاؤ گے۔
Top