Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
اور یہ جن کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ان کا حصہ لگاتے ہیں ان چیزوں میں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہیں،80۔ قسم ہے اللہ کی کہ تم جو کچھ گڑھتے رہتے ہو اس پر ضرور تم سے باز پرس ہوگی،81۔
80۔ یعنی یہ مشرکین ہماری ان نعمتوں میں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہیں، ان معبودوں کا بھی حصہ لگاتے ہیں، جن کے معبود ہونے ہی پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں۔ ذکر مشرکین عرب کا ہورہا ہے۔ ان کی ان خصوصیات کا ذکر سورة الانعام (پارہ نمبر 8) میں آچکا ہے۔ (آیت) ” لما لایعلمون “۔ وہ جن کی بابت ان کے پاس نہ کوئی علم ہے نہ ثبوت ہے نہ تحقیق ہے۔ بس بلادلیل وحجت اندھا دھند انہیں اپنا دیوتا مانے جاتے ہیں۔ 81۔ (اے مشرکو ! ) موقع تہدید پر صیغہ ایک طرف تو غائب سے مخاطب ہوا اور دوسری طرف متکلم سے غائب کا ہوگیا۔ (آیت) ” تاللہ “۔ زور وتاکید کے موقع پر قسم کا لانا عربی اسلوب بیان کی ایک صناعت ہے (آیت) ” تاللہ “۔ حرف قسم کات کے ساتھ لانا لفظ اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ (آیت) ” لتسئلن “۔ باز پرس سے مؤاخذہ حشر مراد ہے۔
Top