Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
اور ہم نے جو کچھ رزق انہیں دیا ہے اس میں یہ ان ہستیوں کا بھی حصہ ٹھہراتے ہیں جن کی حقیقت کی انہیں خبر نہیں ، واللہ ! تم سے ضرور اس بارے میں باز پرس ہوگی کہ کیسی افتراء پردازیاں کرتے رہے ہو
جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں غیروں کا حصہ بھی مقرر کرنے لگتے ہیں : 64۔ مشرکین کی حالت یہ ہے کہ ہماری ان نعمتوں میں سے جو ہم نے ان کو دے رکھی ہیں ان معبودوں کا بھی حصہ لگاتے ہیں جن کے معبود ہونے ہی پر کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ، قرآن کریم میں ہر قسم کے شرک کی تردید کی جاتی ہے اور بار بار کی جاتی ہے گویا یہ اتنی ضرر رساں چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز ضرر رساں نہیں ہے ، شرک کا اصل ضرر کیا ہے ؟ شرک کا اصل ضرر یہ ہے کہ خدا سے انسان کو جس درجہ کا تعلق ‘ جس قسم کا عجزو نیاز ‘ جس مرتبہ کی محبت ‘ جس درجہ کی التجا درکار ہے اس کا رخ دوسری جانب بدل جاتا ہے ہزاروں ‘ لاکھوں آدمی ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دیوتا کائنات اور زمین و آسمان کے خالق نہیں ہیں تاہم وہ ہر قسم کی حاجتیں اور مرادیں انہیں دیوتاؤں اور معبودوں سے مانگتے ہیں ‘ انہی کی حاجت روا جانتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ان ہی کا نام لیتے ہیں ‘ انہیں پر نذر ونیاز چڑھاتے ہیں ، غرض براہ راست ان کا جو تعلق ہوتا ہے انہیں معبودوں سے ہوتا ہے خود مسلمانوں میں ہزاروں ‘ لاکھوں آدمیوں کا طرز عمل انبیاء وصلحاء بلکہ اولیائے کرام کے مزارات کی نسبت اس کے قریب قریب ہے اس بنا پر مقدم ترین امر یہ ہے کہ معبودوں کی نسبت اس قسم کا خیال نہ پیدا ہونے پائے بلکہ صاف صاف بتا دیا جائے کہ خدا کے آگے کسی کی کچھ نہیں چل سکتی اور اس کی مرضی میں کوئی بھی دست اندازی نہیں کرسکتا ، غور کرو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم نبی ورسول ہیں انہوں نے اپنے باپ سے طلب مغفرت کا وعدہ کیا تو ساتھ ہی کہہ دیا کہ (آیت) ” وما املک لک میں اللہ من شیء “۔ (الممتحنہ 60 : 4) ” مجھے خدا کے سامنے آپ کی نسبت کوئی اختیار نہیں ۔ “ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت طلب کی تھی وہ نہیں ملی البتہ یہ درخواست قبول ہوئی کہ میں ان کی قبول کو دیکھ لوں (صحیح مسلم کتاب الجنائز) قرآن کریم میں آیت اتری کہ (آیت) ” انذر عشیرتک الاقربین “۔ تو آپ ﷺ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا اے قریشیو ! اے اولاد عبدالمطلب اے عباس ! اے صفیہ ! اے فاطمہ ! میرے مال میں سے جو مانگو میں دے سکتا ہوں لیکن خدا کے ہاں میں تمہارے لئے کچھ نہیں کرسکتا ۔ زیر نظر آیت میں واضح الفاظ میں فرما دیا کہ ” اور پھر دیکھو ہم نے رزق انہیں عطا کیا ہے اس میں یہ ان ہستیوں کا بھی حصہ ٹھہراتے ہیں جن کی حقیقت کی انہیں خبر نہیں حاش اللہ ! تم سے ضرور اس بارے میں باز پرس ہوگی کہ حقیقت کے خلاف کیسی کیسی افتراپردازیاں کرتے رہتے ہو۔ “
Top