Mutaliya-e-Quran - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اُن کے حصے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں خدا کی قسم، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے؟
[وَيَجْعَلُوْنَ : اور وہ بناتے ہیں ] [ لِمَا : اس کے لئے جس کا ] [ لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ لوگ علم نہیں رکھتے ] [ نَصِيْبًا : ایک حصہ ] [ مِّمَا : اس میں سے جو ] [ رَزَقْنٰهُمْ ۭ : ہم نے روزی دی ان کو ] [ تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم ] [ لَتُسْـــَٔـلُنَّ : تم لوگوں سے لازماً پوچھا جائے گا ] [ عَمَا : اس کے بارے میں جو ] [ كُنْتم تَفْتَرُوْنَ : تم لوگ گھڑا کرتے تھے ] نوٹ۔ 1: آیت۔ 56 میں ” لَا یَعْلَمُوْنَ “ کے حقیقی مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ذہن میں کچھ باتیں واضح ہونا ضروری ہیں۔ مادہ ” ع ل م “ سے مختلف اسماء و افعال قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔ اور یہ زیادہ تر لغوی مفہوم کے بجائے اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ” علم “ ایسی معلومات کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اپنے انبیاء و رسل کو دی ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” اور اگر آپ ﷺ نے پیروی کی ان لوگوں کی خواہشات کی اس کے بعد کہ جو آپ ﷺ کے پاس آیا علم میں سے۔ “ (2:145) ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء و رسل کو جو کچھ بتایا ہے اور بتانا ہے اس میں سے کچھ آیا ہے باقی ابھی آنا ہے۔ اسی طرح سے قرآن میں جہاں کہیں علم کی نفی آئی ہے بالعموم وہاں مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی بات جس کی کوئی سند سابقہ انبیاء و رسل کی تعلیمات میں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات یعنی قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔ جیسے فرمایا ” اور تو پیچھے مت پڑ اس کے تیرے لئے جس کا کوئی علم نہیں ہے۔ “ (17:36) ۔ ” اور اگر وہ دونوں یعنی والدین تجھ سے جہاد کریں اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے لئے، نہیں ہے تیرے لئے جس کا کوئی علم، تو ان کی اطاعت مت کر “ (31:15) ۔ یہ اور ایسے متعدد مقامات پر علم نہ ہونے کا مطلب ہے قرآن و حدیث میں سند نہ ہونا۔ واضح رہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر یہ لفظ اصطلاحی کے بجائے لغوی مفہوم میں بھی آیا ہے۔ جیسے قارون کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا ” اس نے کہا کچھ نہیں سوائے اس کے کہ مجھے ملا ہے یہ ایک علم کی بنیاد پر جو میرے پاس ہے۔ “ (28:78) ۔ یہاں علم کا مطلب ہے تجربہ اور مہارت یعنی ہنرمندی۔ کوئی اگر آیت کے سیاق وسباق کو نظر میں رکھے تو وہ آسانی سے تمیز کرسکتا ہے کہ کہاں یہ لفظ لغوی مفہوم میں آیا ہے۔ اس لحاظ سے آیت۔ 56 کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان شکرانے، نذرونیاز اور چڑھاوے میں غیر اللہ کے لئے جو حصہ مقرر کرلیتا ہے، ان ہستیوں کے وجود اور صفات کی اس کے پاس قرآن و حدیث میں کوئی سند نہیں ہے۔
Top