Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
اور ہمارے دیئے ہوئے مال میں سے ایسی چیزوں کا حصہ مقرر کرتے ہیں جن کو جانتے ہی نہیں۔ (کفرو ! ) خدا کی قسم کہ جو تم افترا کرتے ہو اس کی تم سے ضرور پرسش ہوگی۔
56۔ اوپر ذکر تھا کہ جو بلائیں اور بیماریاں ان لوگوں کو پہنچتی ہیں اور یہ خدا سے گڑ گڑانے لگتے ہیں اور خداوند عالم محض اپنی شان رحیمی سے فضل کرتا ہے اور وہ ضرر ان سے دفعہ کردیتا ہے تو بجائے اس کے شکریہ کے طرح طرح کی ناشکریاں ان سے سرزد ہونے لگتی ہیں اس آیت میں فرمایا یہ بت جو بالکل بیخبر پتھر ہیں ان کے واسطے اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے یہ لوگ حصہ مقرر کرتے ہیں ان بتوں کو اس کی مطلق خبر بھی نہیں ہے نہ جاندار ہیں نہ انہیں آنکھیں ہیں نہ کان۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ بت جن کو کسی شئی کے سمجھنے بوجھنے کی قوت نہیں کفار اپنے مال میں سے ان کا حصہ ٹھہراتے ہیں مجاہد کا یہ قول ہے کہ کفار جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کو پیدا کیا ہے اور ہر طرح کا فائدہ و نقصان وہی انہیں پہنچاتا رہتا ہے۔ یہ بت جن کو فائدہ اور نقصان کا علم نہیں ہے۔ یہ مشرک اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے ان کا حصہ ٹھہراتے ہیں۔ سدی کا قول یہ ہے کہ یہ آیت اس آیت کی طرح ہے جو سورت انعام میں گزر چکی ھذا للہ بزعمھم وھذا لشرکائنا (6: 126) جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرک اپنے مال و دولت و چارپایوں میں خدا کا حصہ مقرر کرتے تھے اور اپنے بتوں کے واسطے بھی حصہ مقرر کرتے تھے اگر وہ اچھی ہوتی تھی تو خدا کے واسطے اس کو بتوں کے حصہ میں بدل دیتے تھے اور جو چیز بتوں کے واسطے مقرر کرتے تھے اگر وہ اچھی ہوتی تھی تو خدا کے واسطے اس کو نہیں بدلتے تھے۔ غرضیکہ اس بات پر اللہ پاک نے اپنی ذات کی قسم کھائی کہ قیامت کے دن اللہ ضرور ان لوگوں سے پوچھے گا کہ یہ لوگ دنیا میں کیا جھوٹ اللہ پر باندھا کرتے تھے۔ ترمذی، مسند، بزار اور طبرانی کے حوالہ سے ابوذر ؓ اور معاذ بن جبل ؓ کی معتبر روایتیں گزر چکی 1 ؎ ہیں کہ قیامت کے دن ہر شخص کو چار باتوں کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہونا پڑے گا۔ (1) تمام عمر کن کاموں میں گزاری (2) جوانی میں کیا کیا (3) روپیہ پیسہ کیوں کر کمایا اور کہاں خرچ کیا (4) علم دین کی نصیحت پر کیا عمل کیا۔ ان روایتوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرکوں نے جو کچھ عمر بھر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے ان چار باتوں کی جواب دہی میں وہ سب کھل جائے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے کہ جو شخص ان باتوں کے جواب کے وقت جھوٹ بولے گا تو اس کے منہ پر خاموشی کی مہر لگائی جا کر اس کے ہاتھ پیروں کو اصل حال بیان کرنے کا حکم 2 ؎ ہوگا۔ 1 ؎ دیکھئے تفسیر ہذا جلد دوم ص 223 وجلد ہذا ص 289، 306۔ 2 ؎ صحیح مسلم ص 409 ج 2 فصل فی بیان ان الاحضار منطقۃ شاھدۃ یوم القیمۃ۔
Top