Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 56
وَ یَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ١ؕ تَاللّٰهِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ
وَ : اور يَجْعَلُوْنَ : وہ مقرر کرتے ہیں لِمَا : اس کے لیے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے نَصِيْبًا : حصہ مِّمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا تَاللّٰهِ : اللہ کی قسم لَتُسْئَلُنَّ : تم سے ضرور پوچھا جائے گا عَمَّا : اس سے جو كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ : تم جھوٹ باندھتے تھے
یہ لوگ جن کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ان کے حصے ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے مقرر کرتے ہیں ”۔ خدا کی قسم ، ضرور تم سے پوچھا جائے گا کہ یہ جھوٹ تم نے کیسے گھڑ لیے تھے ”۔
مثلا یہ لوگ اپنے اوپر بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ نہ ان پر سوار ہوتے ہیں اور نہ ان کا گوشت چکھتے ہیں یا بعض جانوروں کے گوشت کو مردوں کے لئے مخصوص کرتے ہیں اور عورتوں پر وہ حرام تصور ہوتے ہیں اور یہ کام وہ اپنے نام نہاد الہٰوں کے نام پہ کرتے ہیں۔ ان کے ان مزعومات کی تفصیلات ہم نے سورة انعام میں دے دی ہیں۔ اور جن الہوں کے نام پر یہ لوگ شرک کرتے ہیں ان کے بارے میں ان لوگوں کو کوئی علم نہیں ہے یہ ان کے موروثی تصورات ہیں جو جاہلیت سے ان کے ہاں نقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ حالانکہ یہ نعمتیں ان کو اللہ نے دی ہیں جو وحدہ لا شریک ہے اور جن الہوں کی طرف یہ ان کو منسوب کرتے ہیں ان کے بارے میں خد ان کو کچھ علم نہیں ہے۔ غرض یہ ان نام نہاد الہوں کے عطا کردہ انعامات نہیں ہیں بلکہ یہ انعامات اللہ وحدہ کے ہیں جس کے ساتھ یہ لوگ شریک کرتے ہیں۔ یوں قرآن کے نظریہ حیات اور ان جاہلوں کے نظریات کے درمیان واضح فرق معلوم ہوجاتا ہے۔ اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ رزق سب کا سب الٰہ واحد کا عطا کردہ ہے۔ اور اس کے نام سے استعمال ہونا چاہئے یہ لوگ بعض ارزاق کو ان الہٰوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ایسی ہستیوں کو الٰہ بناتے ہیں جن سے انہیں روکا گیا ہے۔ دونوں نظریات میں یہ واضح فرق ہے۔ لیکن آج قرآن کے ہوتے ہوئے اور عقیدۂ توحید کی وضاحت کے بعد بھی بعض لوگ اللہ کی عطا کردہ بعض اقسام رزق کو ایسی شخصیات کے نام سے منسوب کرتے ہیں جو جاہلیت کے الہٰوں کے مشابہ ہیں۔ آج بھی بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ “ یہ سید بدوی کا بکرا ہے ”۔ یہ بکرا جہاں چاہے چرے چگے کوئی اسے منع نہیں کرے گا ۔ کوئی شخص اس کو نہ کھائے گا۔ وہ سید بدوی کے نام سے ذبح ہوگا اور اس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے گا۔ بعض لوگ آج بھی بعض اولیاء کے نام جانوروں کی نذریں مانتے ہیں اور پھر یہ نذریں چڑھاتے ہیں۔ یہ ان اولیائے کے نام پر ہوتی ہیں اور ان پر اللہ کا نام ہی نہیں لیا جاتا۔ صرف مذکور ولی کا نام لیا جاتا ہے۔ اہل جاہلیت بھی اسی طرح بعض نامعلوم خداؤں کے نام پر ایسی نذریں چڑھاتے تھے۔ ایسے جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے اگر چہ ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیا جائے کیونکہ یہ اہل نفیر اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ آیت نمبر 56 ترجمہ : “ اللہ قسم کھا کر تاکید مزید سے یہ بات کرتے ہیں ۔ چناچہ یہ ایک افتراء ہے اور اسلامی عقیدہ اور ایمان کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔ اس سے عقیدۂ توحید کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں اللہ ضرور پوچھے گا۔
Top