Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
پھر ان لوگوں نے جنھوں نے ظلم کیا، بات کو اس کے خلاف بدل دیا جو ان سے کہی گئی تھی، تو ہم نے ان لوگوں پر جنھوں نے ظلم کیا تھا، آسمان سے ایک عذاب نازل کیا، اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔
مگر ان ظالموں نے اللہ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”بنی اسرائیل سے کہا گیا : (وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا)”اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوجاؤ اور کہو بخش دے۔“ تو انھوں نے اسے بدل دیا اور اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور انھوں نے کہا : (حَبَّۃٌ فِیْ شَعْرَۃٍ) ”دانہ بالی میں“ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ : 3403۔ مسلم : 3015 ] بتائیے کہ اس سے بڑھ کر عناد اور حکم الٰہی کی مخالفت اور کیا ہوسکتی تھی اس عظیم نافرمانی کو قرآن نے ”فسق“ سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی حدود اللہ سے کلیتاً نکل جانے کے ہیں، اس بنا پر انھیں ظالم قرار دیا اور ان کے اس ظلم کی سزا میں ان پر طاعون کا عذاب نازل فرمایا : ”رجز“ کے معنی گو مطلق عذاب کے ہیں، مگر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد طاعون ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اَلطَّاعُوْنَ رِجْسٌ اُرْسِلَ عَلٰٰی طَاءِفَۃٍ مِنْ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ أَوْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : 3437، عن اسامۃ بن زید ] ”طاعون ایک عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر یا ان لوگوں پر بھیجا گیا جو تم سے پہلے تھے۔“ مسلم میں ”رِجْسٌ“ کی جگہ ”رِجْزٌ“ ہے۔ [ مسلم، السلام، باب الطاعون والطیرۃ۔۔ : 2218 ] حافظ ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں کہ یہ قصہ سورة اعراف میں بھی مذکور ہے، مگر وہ سورت چونکہ مکی ہے، اس لیے ضمیر غائب سے اس کو ذکر کیا ہے اور یہ سورت مدنی ہے اور مدینہ میں یہود سامنے تھے، اس لیے ضمیر مخاطب لائی گئی ہے۔ الغرض ان دونوں قصوں (بقرہ اور اعراف) کے درمیان سیاق کے اعتبار سے دس وجوہ سے فرق پایا گیا ہے، جن میں سے بعض کا تعلق الفاظ سے ہے اور بعض کا معنی سے۔ امام رازی اور امام زمخشری ؓ نے وہ دس فرق خوب تفصیل سے بیان کیے ہیں۔
Top