Al-Quran-al-Kareem - Al-Muminoon : 60
وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْتُوْنَ : دیتے ہیں مَآ اٰتَوْا : جو وہ دیتے ہیں وَّقُلُوْبُهُمْ : اور ان کے دل وَجِلَةٌ : ڈرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقینا وہ اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا۔۔ : ”آتٰی یُؤْتِيْ إِیْتَاءً“ کا معنی ہے، دینا۔ عام طور پر اس سے مراد صدقہ و زکوٰۃ لیا جاتا ہے، مگر ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر ؓ نے فرمایا : ”اس سے نیکی کے تمام اعمال مراد ہیں۔“ (طبری) عربی میں ”إِیْتَاءٌ“ (دینا) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کرلینے کے لیے کہتے ہیں : ”آتَیْتُہُ مِنْ نَفْسِي الْقَبُوْلَ“ اور اطاعت قبول نہ کرنے کے لیے کہتے ہیں : ”آتَیْتُہُ مِنْ نَفْسِي الإِْبَاءَ۔“ ابن عطیہ فرماتے ہیں : ”یہ معنی زیادہ خوب صورت ہے، گویا فرمایا : ”وَالَّذِیْنَ یُعْطُوْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ فِيْ طَاعَۃِ اللّٰہِ مَا بَلَغَہُ جُھْدُھُمْ“ ”یعنی وہ اپنی جانوں کی طرف سے اللہ کی اطاعت میں وہ سب کچھ پیش کردیتے ہیں جو ان کے آخری بس میں ہوتا ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ وہ ہر نیک عمل کرتے ہوئے خود پسندی کا شکار ہونے کے بجائے سخت ڈر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے پاس جانا ہے، کیا خبر اس کی جناب میں ہمارا عمل قبول ہوتا ہے یا نہیں اور کیا خبر کہ رب تعالیٰ کے حضور جانے کے وقت ہمارے ایمان و عمل کا کیا حال ہوتا ہے، کیونکہ دار و مدار تو خاتمے پر ہے۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا : (یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! (ۙوَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) [ المؤمنون : 60 ] أَ ھُوَ الَّذِيْ یَزْنِيْ وَ یَسْرِقُ وَ یَشْرَبُ الْخَمْرَ ؟ قَالَ لَا، یَا بِنْتَ أَبِيْ بَکْرٍ ! أَوْ یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ ! وَلٰکِنَّہُ الرَّجُلُ یَصُوْمُ وَ یَتَصَدَّقُ وَ یُصَلِّيْ ، وَ ھُوَ یَخَافُ أَنْ لَا یُتَقَبَّلَ مِنْہُ) [ ابن ماجہ، الزھد، باب التوقي علی العمل : 4198۔ ترمذي : 3175۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 162]”یا رسول اللہ ! (اللہ کا فرمان ہے): (ۙوَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ) کیا اس سے مراد وہ شخص ہے جو چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا : ”نہیں ! اے ابوبکر کی بیٹی ! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اور وہ ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے قبول نہ کیا جائے۔“ ترمذی کی حدیث کے آخر میں ہے کہ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی : (ۙاُولٰۗىِٕكَ يُسٰرِعُوْنَ فِي الْخَــيْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ) [ المؤمنون : 61 ] ”یہی (مذکورہ بالا صفات والے) وہ لوگ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں اور یہی لوگ ان کی طرف آگے نکلنے والے ہیں۔“ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ”يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا“ سے مراد صرف صدقہ و زکوٰۃ ہی نہیں، بلکہ تمام اعمال ہیں۔
Top