Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 60
وَ الَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْتُوْنَ : دیتے ہیں مَآ اٰتَوْا : جو وہ دیتے ہیں وَّقُلُوْبُهُمْ : اور ان کے دل وَجِلَةٌ : ڈرتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ اِلٰى : طرف رَبِّهِمْ : اپنا رب رٰجِعُوْنَ : لوٹنے والے
اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے پروردگار کی لوٹ کر جانا ہے
والذین یوتون ما اتوا وقلوبہم وجلۃ انہم الی ربہم رجعون۔ اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) جو کچھ دیتے ہیں ایسی حالت میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ مَااَتَوْا یعنی جو کچھ خیر ‘ خیرات کرتے ہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ یہ آیت یُؤْتُوْنَ مَااَتَوْا پڑھتی تھیں تو فرماتی تھیں جو کچھ نیک کام کرتے ہیں (یعنی حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک دینے سے مراد صرف مال دینا نہیں بلکہ ہر کار خیر کرنا مراد ہے) ۔ وَجِلَۃٌڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی خیر خیرات رد نہ کردی جائے اور قبول نہ کی جائے۔ یا اس طریقے سے نہ ہو پائے جو بارگاہ کبریائی میں پیش ہونے کے مناسب ہے اور اس پر ان کی پکڑ ہوجائے یا ان کو اپنے گناہوں کی کثرت اور اطاعت کی قلت کی وجہ سے یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ خیر خیرات بھی ان کو اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکے۔ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ یہ کلام سابق کی علت ہے لام (تعلیلیہ) محذوف ہے یعنی ان کے دل خوف زدہ رہتے ہیں اس وجہ سے کہ ان کی واپسی اللہ کے پاس ہوگی یا مِنْ محذوف ہے یعنی اس بات سے ان کے دل ڈرتے ہیں کہ اللہ کے پاس ان کو لوٹ کر جانا ہے اور وہ ان کے ہر عمل سے واقف ہے۔ حسن بصری (رح) نے فرمایا وہ اللہ کی طاعت کرتے ہیں اور کوشش کے ساتھ کرتے ہیں پھر بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی طاعت نامقبول نہ ہوجائے۔ حضرت عائشہ ؓ : کا بیان ہے ‘ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت والِّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اَتٰوَا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌکے متعلق دریافت کیا اور عرض کیا (کیا) یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں۔ فرمایا ‘ نہیں اے صدیق کی بیٹی ‘ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور خیرات کرتے ہیں اور پھر بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں انکی یہ طاعت نامقبول نہ ہوجائے یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ۔ بیہقی کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌکیا یہ وہ شخص ہے جو زنا کرتا ‘ شراب پیتا اور چوری کرتا ہے فرمایا نہیں اے صدیق کی بیٹی ! یہ وہ شخص نہیں) بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو رات کو (نماز کے لئے) اٹھتا ہے اور خیرات کرتا ہے اور (پھر بھی) ڈرتا ہے کہ کہیں قبول نہ ہو۔
Top