Al-Quran-al-Kareem - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔
1۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّـتٰنِ :”مقام“”قام یقوم قیاماً“ (ن) سے ظرف بھی ہوسکتا ہے ،”کھڑا ہونے کی جگہ یا وقت“ اور مصدر میمی بھی ہوسکتا ہے۔ ”کھڑا ہونا“۔ جہنم اور اہل جہنم کے تذکرے کے بعد اہل جنت کا ذکر فرمایا۔ ”مقام ربہ“ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں قرآن مجید کی آیات میں ملتے ہیں ، ایک یہ کہ جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں۔ اس صورت میں ”مقام ربہ“ سے مراد بندے کا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے ، فرمایا :(یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ) (المطففین : 6)”جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے“۔ دوسرا یہ کہ جو شخص اپنے رب کے (اپنے اوپر ہر وقت) قائم (نگران) ہونے سے ڈر گیا۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے ، فرمایا :(اَفَمَنْ ہُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ ج) (الرعد : 33)”تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے) ؟“ آیت سے دونوں معنی بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی قرآن مجید کا ایک کمال ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ متعدد معانی کا حامل ہے۔ یعنی جو شخص اس بات سے ڈر گیا کہ اس نے قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس بات سے بھی ڈرتا رہا کہ اس کا رب اس کی ہر چھوٹی بڑی حرکت کو دیکھ رہا ہے ، تو اس کے لیے دو باغ ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ جنت کی وارثت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے ، کیونکہ یہی وہ جوہر ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر قائم رکھتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو موقع میسر ہونے پر انسان کو کوئی بھی چیز کسی بھی جرم کے ارتکاب سے نہیں روک سکتی اور جب یہ موجود ہو تو آدمی کے قدم مشکل سے مشکل مقام پر نہیں ڈگمگاتے۔ صحیح بخاری (660) میں قیامت کے دن جن سات آدمیوں کو عرش کا سایہ ملنے کی بشارت دی گئی ہے ان سب کے اعمال میں اصل اللہ تعالیٰ کا ڈر ہی ہے اور اس کفن چور کی مغفرت کا باعث بھی اللہ کا ڈر تھا جس نے وصیت کی تھی کہ مجھے جلا کر میری کچھ راکھ کو ہوا میں اڑا دیا جائے اور کچھ کو پانی میں بہا دیا جائے۔ (دیکھئے بخاری : 3452)”مقام ربہ“ کے لفظ میں خوف کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نمایاں ہے کہ وہ کسی اجنبی یا ظالم سے نہیں ڈر رہا ، بلکہ اپنے مالک سے ڈر رہا ہے جس نے اسے پیدا کیا ، پھر ہر لمحے اس کی پرورش کر رہا ہے اور اس کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے۔ 2۔ جنتن :”جنۃ“ کا اصل معنی باغ ہے۔ قرآن مجید میں کہیں یہ لفظ مفرد آیا ہے اور تمام اہل ایمان کے ایک ہی جنت میں داخلے کا ذکر ہے ، جیسا کہ فرمایا :(مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَـلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَاج وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰـٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ) (المومن : 40)”اور جس نے کوئی نیک عمل کیا ، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، اس میں بےحساب رزق دیئے جائیں گے“۔ اور کہیں جمع آیا ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰـرُ ط) (البقرہ : 25)”اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اس بڑے باغ میں بیشمار باغات ہیں ، جن میں سے ہر مومن کو دو دو باغ عطاء کیے جائیں گے ، جن کا وہ مالک ہوگا (لام تملیک کے لیے ہے) اور جن میں وہ سب کچھ ہوگا جس کا آگے ذکر ہو رہا ہے۔ 3۔ ان آیات میں ہر اس شخص کو دو دو باغ ملنے کا ذکر ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا۔ چند آیات کے بعد اور دو باغوں کا ذکر ہے ، فرمایا :(ومن دونھما جنتن) جس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کے علاوہ بھی دو باغ ہیں اور یہ بھی کہ ان دونوں سے کم درجے والے بھی دو باغ ہیں۔ دونوں آیات کو ملائیں تو مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کے علاوہ دو اور باغ ہیں جو پہلے باغوں سے کم درجے کے ہیں۔ تحقیق یہی ہے کہ پہلے دو باغ اعلیٰ ہیں جو مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ ان سے کم درجے والے ہیں جو اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔ سورة ٔ واقعہ میں بھی سابقین کو مقربین قرار دے کر انہیں ملنے والی نعمتوں کا پہلے الگ ذکر فرمایا ہے ، اس کے بعد اصحاب الیمین کا ذکر کر کے انہیں ملنے والی نعمتوں کا الگ ذکر فرمایا ، یہاں بھی ایسے ہی ہے ، تقریباً ہر نعمت میں دونوں کا فرق نمایاں ہے ، تفسیر میں اس فرق کی طرف اشارہ آرہا ہے۔ امام بخاری ؒ تعالیٰ نے صحیح بخاری میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ عبد اللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری ؓ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(جنتان من فضۃ ، انیتھما وما فیھما ، وجنتان من ذھب انیتھما وما فیھما وما بین القوم و بین ان ینظروا الی ربھم الا رداء الکبر علی وجھہ فی جنۃ عدن) (بخاری التفسیر ، باب قولہ، (ومن دونھما جنتان): 4878) ”دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان دونوں میں ہے چاندی کا ہے اور دو باغ ایسے ہیں جن کے برتن اور جو کچھ ان میں سے ہے سونے کا ہے۔ اور جنت عدن میں جنتیوں کے درمیان اور ان کے اپنے رب کو دیکھنے کے درمیان کبریائی کی چادر کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں جو اس کے چہرے پر ہے“۔ صحیح بخاری میں اس کی سند اس طرح ہے :”حدثنا عبد اللہ بن ابی الاسود ، حدثنا عبد العزیز بن عبد الصمد العمی ، حدثنا ابو عمران الحونی عن ابی بکر بن عبد اللہ بن قیس عن ابیہ ان رسول اللہ ﷺ قال۔۔۔۔“ فتح الباری (8/624) میں ہے کہ اسی حدیث کو ابن مردویہ نے (عبد العزیز کے بجائے) ”حماد عن ابی عمران“ بیان کیا ہے ، اس میں یہ لفظ ہیں (من ذھب للسابقین و من فضۃ للنابعین) یعنی سابقین کے لیے سونے والے اور تابعین کے لیے چاندی والے باغ ہوں گے۔ اور ابوبکر سے ثابت کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :(من ذھب للمقربین ومن فتۃ لاصحاب الیمین) یعنی سونے والے باغ مقربین کے لیے اور چاندی والے اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔ اس حدیث کے طرق سے واضح ہے کہ پہلے دو باغ مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ اصحاب الیمین کے لیے ہیں۔
Top