Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
اور تو ہم سے اس کے سوا کس چیز کا بدلہ لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی آیات پر ایمان لے آئے، جب وہ ہمارے پاس آئیں، اے ہمارے رب ! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں اس حال میں فوت کر کہ فرماں بردار ہوں۔
وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا۔۔ : ”نَقَِمَ مِنْہُ (ض، ع)“ اور ”اِنْتَقَمَ“ عَاقَبَہُ یعنی ”نَقَمَ مِنْہُ“ اور ”اِنْتَقَمَ مِنْہُ“ کا معنی بدلہ لینا، سزا دینا ہے اور ”نَقَّمَ الْأَمْرَ“ کا معنی ”کَرِھَہُ“ یعنی کسی شے سے بہت زیادہ نفرت اور کراہت ہے۔ (قاموس) مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی گناہ ہے تو صرف یہ کہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کو جتنا اس فن والا جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، چناچہ ان جادوگروں نے جب موسیٰ ؑ کے معجزے کو دیکھا تو فوراً سمجھ گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزہ ہے، اس لیے وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے اور ان کے ایمان میں اس قدر پختگی تھی کہ انھوں نے جان تک کی پروا نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ سے صبر و استقامت اور ایمان و اسلام پر موت کی دعا کی۔ مشہور قول کے مطابق وہ قتل کردیے گئے، چناچہ طبری اور دوسرے مفسرین نے ابن عباس ؓ کا قول ذکر کیا ہے کہ شروع دن میں وہ جادوگر تھے اور پھر دن کے آخری حصے میں شہداء میں داخل ہوگئے۔ دکتور حکمت بن بشیر نے تفسیر ابن کثیر کی تخریج میں ابن عباس ؓ کے اس قول کے متعلق لکھا ہے کہ ابن عباس ؓ کا یہ قول ابن ابی حاتم نے ضعیف سند کے ساتھ سدی عن ابن عباس کے طریق سے روایت کیا ہے جب کہ سدی نے ابن عباس ؓ سے نہیں سنا (لہٰذا روایت منقطع ہے صحیح نہیں)۔ قرآن مجید نے اس مقام پر یہ ذکر نہیں فرمایا کہ ان کا انجام کیا ہوا، نہ ہی سورة شعراء اور سورة طٰہٰ میں یا کسی اور جگہ یہ ذکر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کا مقصد عبرت کے لیے موسیٰ ؑ کے ساتھ اللہ کی مدد، فرعون کی شکست، جادوگروں کے ایمان لانے، فرعون کی دھمکیوں کے باوجود اس پر قائم رہنے کے عزم اور صبر اور ایمان پر خاتمے کی دعا کا بیان ہے، محض قصہ بیان کرنا نہیں، جیسا کہ سورة نازعات میں فرمایا : (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى) [ النازعات : 26 ] ”بیشک اس میں اس شخص کے لیے یقیناً بڑی عبرت ہے جو ڈرتا ہے۔“ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ فرعون اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا، جیسا کہ اس نے اپنے سرداروں سے کہا تھا : ”مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔“ [ المؤمن : 26 ] اور آل فرعون میں سے وہ مومن جس نے بھرے دربار میں موسیٰ ؑ کے قتل کی مخالفت کی اس کے خلاف بھی فرعون نے بدترین سازش کی، مگر وہ موسیٰ ؑ کو قتل نہ کرسکا اور اس مومن کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی سازشوں سے بچا لیا۔ دیکھیے سورة مومن (45) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو یہ تسلی دے کر بھیجا تھا : (سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ڔبِاٰيٰتِنَآ ڔ اَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ) [ القصص : 35 ]”ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو ضرور مضبوط کریں گے اور تم دونوں کے لیے غلبہ رکھیں گے، سو وہ تم تک نہیں پہنچیں گے، ہماری نشانیوں کے ساتھ تم دونوں اور جنھوں نے تمہاری پیروی کی، غالب آنے والے ہو۔“ زیر تفسیر مقام پر بھی اگر وہ اپنی اس دھمکی پر عمل کرچکا ہوتا تو اس کی قوم کے سرداروں کو اسے نئے سرے سے بھڑکانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) چونکہ قرآن مجید میں ان کے انجام کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے۔
Top