Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
اور تو ہم سے انتقام نہیں لیتا مگر اس بات کا، کہ ہم ایمان لے آئے اپنے رب کی آیتوں پر، جب کہ وہ آپہنچیں ہمارے پاس،5 اے ہمارے رب ! فیضان فرما دے، ہم پر صبر (وبرداشت) کا، اور ہمیں اس دنیا سے اس حال میں اٹھانا کہ ہم فرمانبردار ہوں (تیرے) ،
156 جرم ایمان پر ہر سزا قبول و منظور : سو ان مومنان صدق و صفا نے فرعون سے کہا کہ تو ہم سے اسی بات کا انتقام لے رہا ہے کہ ہم اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لے آئے جبکہ وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں۔ اس کے سوا اور کسی جرم کا ارتکاب تو ہم نے کیا نہیں۔ اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لانا اگر جرم ہے تو اس کے بدلے ہم سزا بھگتنے کے لئے بخوشی تیار ہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لانا تو کوئی جرم نہیں بلکہ یہ تو عقل و نقل اور انصاف و فطرت کا تقاضا ہے۔ اور اسی پر انسان کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا دارومدار ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر تم لوگ ہمیں اس جرم ایمان پر یہ سزا دینا چاہتے ہو تو ہم اس کے لیے برضا ورغبت تیار ہیں اور اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ہم اپنی سعادت سمجھتے ہیں کہ ایمان و یقین کی دولت بہرحال ہر چیز سے مقدم اور سب پر فائق ہے۔ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے اور اس سر سرفرازی کے بعد مومن کی ہر حالت خیر ہی خیر ہے جبکہ اس سے محرومی ۔ والعیاذ باللہ ۔ ہر خیر سے محرومی ہے۔ اور ایسے میں انسان کا وجود اللہ کی دھرتی پر ایک ناروا بوجھ بن کر رہ جاتا ہے اور یہ اس کچرے سے گیا گزرا اور بیکار ہوجاتا ہے جس کو آگ میں جلا کر راکھ کردیا جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے۔
Top