Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ اے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمان بردار ہوں
یہ ہے وہ ایمان حقیقی کا حامل انسان ، جو نہ خائف ہوتا ہے اور نہ اس کے پاؤں ڈگمگاتے ہیں۔ نہ وہ جھکتا ہے اور نہ غلام ہے۔ جو اپنے انجام کے بارے میں مطمئن ہے اور اس راہ پر راضی ہوگیا ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ رب العالمین کی طرف لوٹنے والا ہے اور وہ اس راہ کو اب نہیں چھوڑ سکتا۔ قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ۔ انہوں نے جواب دیا۔ بہرحال ہمیں پلٹنا اپنے رب ہی کی طرف ہے۔ جو شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے اور طاغوتی نظام کے درمیان برپا معرکے کی نوعیت کیا ہے ؟ اور یہ کہ یہ معرکہ ایک نظریاتی معرکہ ہے ، وہ پھر مداہنت نہیں کرتا اور نہ جنگی داؤ پیچ سے کام لیتا ہے نہ درگزر اور عفو سے کام لیتا ہے۔ خصوصاً ایسے دشمن کے مقابلے میں جس کا مقصد یہ ہو کہ اہل ایمان اپنے ایمان اور نظرئیے سے دستبردار ہوجائیں۔ وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا۔ تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا۔ جو شخص یہ جانتا ہو کہ وہ کس کے خلاف صف آرا ہے ، اور وہ کس کے مقابلے میں آگے بڑھ رہا ہے ، پھر وہ اپنے دشمن سے امن و عافیت کا سوال نہیں کیا کرتا۔ وہ صرف اپنے رب سے سوال کرتا ہے اور وہ بھی اس ات کا کہ اسے اس فتنے میں صبر و استقامت عطا کی جائے اور یہ کہ وہ اسلام کا وفادار ہے۔ رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ " اے رب ، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے فرمان بردار ہوں "۔ اب سرکشی ایمان کے مقابلے میں بےبس ہوجاتی ہے ، اسے ایک فہم سے اور اطمینان کے ایک پہاڑ سے واسطہ پڑتا ہے۔ سرکشی اور طغیان کی ذہنیت یہ ہوتی ہے کہ اسے اختیار کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اسے انسان کے جسم پر غلبہ اور کنٹرول حاصل ہے ، اس طرح اسے لوگوں کے دل و دماغ پر بھی تسلط حاصل ہے۔ اور جس طرح وہ لوگوں کے جسموں پر حکم چلاتے ہیں اسی طرح وہ لوگوں کے دماغوں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں ، لیکن یہ بات ان کے لئے انہونی ہوتی ہے کہ کوئی دل ان کی نافرمانی کرے حالانکہ ایسا ہوتا ہے ، اس لیے کہ دل تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور جب کسی دل کا رابطہ اللہ سے ہوجائے اور وہ سرکشی کے مقابلے میں ڈٹ جائے تو یہ سرکشی بےبس ہوجاتی ہے۔ جب دل اللہ کے ہوجائیں اور ان کا ربط اللہ سے ہوجائے تو بڑی سے بڑی طاقت بھی بےبس ہوجاتی ہے۔ ایمانی قوت کے مقابلے میں بڑے بڑے سلطان اور جبار عاجز آجاتے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موقف ہے۔ ایک طرف فرعون ، اس کا طاغوتی نظام اور اس کے پیروکار ہیں اور دوسری جانب بےبس مومن جادوگر ہیں جو کبھی جادوگر تھے۔ اب وہ ایک تاریخی موقف کے حامل ہیں۔ ان کا نظریہ حیات زندگی پر فاتح ہوکر برتری حاصل کرچکا ہے۔ انسانی عزیمت نے جسمانی رنج والم پر برتری حاصل کرلی ہے۔ انسان شیطان پر غالب آگیا ہے۔ بیشک یہ انسانی تاریخ کا ایک دو ٹوک موقف ہے۔ اس موقف کے ذریعے ایک حقیقی آزادی کا اعلان کیا گیا ہے۔ آزادی کی ماہیت کیا ہے ؟ آزادی یہ ہے کہ ایک انسان اپنے عقیدے اور نظریات کو لے کر سرفراز ہوجائے اور جباروں اور سرکشوں کے مقابلے میں ڈٹ جائے۔ اور اس مادی قوت کو ہیچ سمجھ لے جو انسانی جسموں پر تو کنٹرول کرتی ہے لیکن جسے انسان کی روح اور نظریات تک رسائی نہیں ہوتی ، اور جب مادی قوتیں دلوں کو مسخر کرنے سے عاجز آجائیں تو اس مقام سے حقیقی حریت اور آزادی کا جنم شروع ہوتا ہے اور یاد رہے کہ یہ جنم آزاد دلوں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک دو ٹوک موقف ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ موقف واضح طور پر بتاتا ہے کہ مادی قوت بےکس و بےبس ہے۔ ذرا دیکھیے کہ یہ جادوگر ابھی تو فرعون سے معمولی اجرت کے طلبگار تھے اور پھر یہ تمنا رکھتے تھے کہ اس کے دربار میں کرسی نشین ہوجائیں اور بادشاہ کے ساتھ انہیں قرب نصیب ہو۔ یہ حقیر گروہ ، ایمان کے بعد ، اب فرعون کے مقابلے میں سرفرازی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور دار و رسن کے مقابل کے تیار کھڑا ہے۔ حالانکہ مادی اعتبار سے ان کے ماحول ہر چیز اسی حالت میں ہے جو تغیر ہوا ہے۔ وہ صرف یہ ہے کہ ایک حقیر ستارے کو خفیہ اجالا مل گیا ہے ، اور اب یہ حقیر ستارہ نہیں بلکہ حقیر ذرہ ایک مستحکم برج میں داخل ہوگیا ہے اور ایک فانی فرد ازلی اور ابدی قوت تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔ قلب مومن پر ایک سوئی رکھ دی گئی ، اب دل مومن قدرت کے اثرات قبول کر رہا ہے ، اس کے ضمیر میں سے قدرتی آوازیں آرہی ہیں ، اور انسانی بصیرت پر انوار پڑتے ہیں ، یہ سوء قلب مومن کو احساس دلاتی ہے جبکہ عالم مادیت میں کچھ بھی تغیر پذیر نہیں ہوتا۔ لیکن انسان عالم مادیت سے سربلند ہوکر ایسے جہان نو میں چلا جاتا ہے جن کے بارے میں پہلے وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ اب دھمکی اپنا راہ لیتی ہے اور ڈراوا تلاش میں رہتا ہے لیکن ایمان اپنی راہ پر دور نکل چکا ہوتا ہے۔ وہ پیچھے کی طرف دیکھا ہی نہیں ، اسے کوئی تردد نہیں ہوتا اور نہ وہ بےراہ ہوتا ہے۔ اس حد تک جب منظر چلتا ہے تو پردہ گر جاتا ہے اور مزید تفصیلات نہیں دی جاتیں کیونکہ یہاں اس منظر کی خوبصورتی اپنے عروج کو پہنچ کر ایک بات بھی مکمل ہوجاتی ہے اور ایک فنی خوبصورتی بھی اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ قرآن کا فنی کمال یہاں پر بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور قاری کا وجدان بھی قصے کے نفسیاتی مقاصد کو پا لیتا ہے۔ نہایت ہم آہنگی کے ساتھ اور قرآن کریم کے مخصوص اسلوب اظہار میں۔ (دیکھیے میری کتاب التصویر الفنی) قرآن کے سائے میں اس دلچسپ منظر کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں چاہئے کہ قدرے غور و فکر کریں۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے جادوگروں کی جانب سے ایمان اور رب موسیٰ اور ہارون کو تسلیم کرلینے کے فعل کو اپنے نظام حکومت کے خلاف ایک سازش سمجھا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت اور اقتدار خطرے میں ہے۔ اس لیے کہ جس اصول پر ایمان کا نظام قائم ہوتا ہے وہ اصول فرعونی نظام کے اساسی اصول سے متضاد ہے۔ اس بات کی تشریح اس سے قبل ہم کرچکے ہیں۔ یہاں بطور تکرار و تاکید دوبارہ یہ بات لائی جاتی ہے ، کسی ایک دل ، کسی ایک ملک ، کسی ایک نظام میں یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ بھی رب العالمین ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کوئی انسان بھی رب الناس ہو ، اور اس کے قوانین لوگوں میں رائج اور نافذ ہوں اس لیے کہ اللہ کا دین بھی ایک مکمل نظام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ فرعونی دین بھی ایک مکمل دین ہے۔ جب جادوگروں کے دلوں میں شمع ایمان روشن ہوگئی اور انہوں نے ایمان و کفر کی حقیقت کو پا لیا تو انہوں نے اچھی طرح سمجھ لیا کہ ان کے اور فرعون کے درمیان ایسا نظریاتی اور اصولی اختلاف ہے ، اور یہ کہ فرعون جو انتقامی کارروائی کی دھمکی دے رہا ہے وہ محض اس لیے دے رہا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ہم نے اللہ کو رب العالمین تسلیم کرلیا ہے۔ اور اس انداز میں ایمان لانا فرعون کے نظام حکومت کے لیے چیلنج ہے۔ اسی طرح فرعون کی حکومت کے اعلی ڈھانچے اور دستوری نظام کے لیے بھی یہ ایک چیلنج ہے۔ یعنی فرعون کا نظام ربوبیت جس بت پرستانہ تصورات پر قائم تھا وہ جڑ سے اکھڑ گئے تھے۔ جو شخص بھی رب العالمین وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دیتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے۔ اس لئے کہ اس ادراک ہی کی وجہ سے اہل ایمان کے لیے تمام مصائب و شدائد قابل برداشت بن گئے۔ اب وہ دار و رسن کے لیے تیار ہوگئے اس لیے کہ انہوں نے ایمان کا دعوی کردیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کا اور فرعون کا دین ان سے جدا ہے اس لیے کہ فرعون نے لوگوں کو غلام بنا کر اور اپنا قانون جاری کرکے اللہ کی رب العالمینی کا انکار کردیا ہے لہذا فرعون کافر ہے۔ اس طرح ہر داعی کو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ایمان کی طرف دعوت دے رہا ہے اور اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والے کافر ہیں اور فرعونی نظام کے داعی ہیں۔ اور یہ دشمنی محض (البغض فی اللہ) ہے۔ اس کی تہ میں کوئی اور داعیہ ، داعیہ ایمان کے سوا نہیں ہے۔ اس کے بعد اس منظر میں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایمان کے سامنے پوری زندگی اور اس کی آسائشوں کی کوئی قیمت نہیں رہتی۔ عزم و ارادے کے سامنے رنج والم کے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ انسانی قوت شیطانی پر فتح یاب ہوتی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی فحت بخش اور حیران کن منظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس منظر کی خوبصورتی کا بیان ممکن نہیں ہے۔ خود نصوص قرآن ہی کو پڑھیے۔
Top