Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
ہمارا قصور اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے سامنے آگئیں تو ہم ایمان لے آئے ، پروردگار ! ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کر دے اور ہمیں دنیا سے اس طرح اٹھا کہ تیرے فرمانبردار ہوں
عزم کے پہاڑوں کا فرعون کی فرعونیت پر ایک چوکا : 137: ان عزیمت و استقامت کے پہاڑوں اور پاکیزگی وقدوسیت کے ملائک صفت پیکروں نے فرعون کی فرعونیت پر اس طرح چوکا لگایا کہ اے فرعون ! ہم سے اگر کوئی غلطی یا گناہ سر زد ہوتا اور تو ہمیں سزا دیتا تو یہ کوئی معقول بات ہوتی اب تو ہمیں سزا اس لئے دے رہا ہے کہ ہم نے اللہ کو وحدہ لا شریک لہ مان لیا ہے اور اس کی آیات دیکھ کر اس کے رسول کی تصدیق کی ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس سے بڑی اور روشن سچائی کو دیکھ کر تو بھی ایمان لاتا اور ہمیں بھی اس حق شناسی پر انعام دیتا لیکن الٹا تو ہمیں اس لئے سولی پر لٹکا رہا ہے کہ ہم نے حق کو حق کیوں تسلیم کیا تو یہ خود تیری نادانی اور بد نصیبی کی دلیل ہے اگر تو غور کرتا تو تجھے صاف نظر آتا کہ انسان اگر ایمان سے خالی ہے تو اس سے زیادہ حقیر شے کوئی نہیں اور اگر وہ ایمان سے بہرہ مند ہے تو اس سے زیادہ بلند شے کوئی نہیں ؟ ہم سب کی ایک ایک جان ہے اگر ہمارے پاس سو سو جان ہوتی تو ایک ایک کر کے اس سچائی پر قربان کردیتے اگر تیری ہمت ہے تو ہمیں ایک بار نہیں سو سو بار سولی چڑھا دے اس ایمان سے ہم کبھی پھرنے والے نہیں ۔ اس طرح وہ فرعون کو کھری کھری سنانے کے بعد اب انتہائی خشوع و خضوع سے بارگاہ رب العزت میں اپنی عرض اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! امتحان کے ان مشکل ترین لمحون میں ہمیں صبر و شکیبائی سے معمور کر دے اور جب ہماری روحیں اس پیکر خاکی سے نکلنے لگیں تو ہمارے لبوں پر تیری توحید کا گیت جاری ہو اور ہمیں اس دنیا سے اس حالت میں اٹھا کہ تیرے فرمانبردار بندے ہوں ۔ ایک بار پھر غور کرو کہ عمر بھر کے نا خدا شناس منکر کافروں کا دم بھر میں نہ صرف مسلمان بلکہ ایک عارف کامل اور مجاہدوغازی بنا دینے کا یہ معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا اور ید بیضا سے بھی کہیں بہت بڑھ کر تھا لیکن افسوس کہ علمائے اسلام کی اکثریت نے اس کی طرف دھیان نہ دیا ۔ وہ لاٹھی کے سانپ بن جانے اور ہاتھ کی چمکار میں الجھ کر رہ گئے اور اس نتیجہ پر غور نہ کیا اور آج مسلم حکومتیں اپنے آپ کو قوی بنانے کے اس گر کو بھول گئیں جو حقیقت میں قوت و وحدت کی اصل روح ہے اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لئے کہ ہمارا ایمان اللہ اور آخرت پر اس طرح نہ رہا جس طرح ہونا چاہئے۔ آج ہم کام کے نہیں جھگڑے کے شیر ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ شیر کبھی جھگڑا نہیں کرتا بلکہ صرف کام کرتا ہے اور کام تمام کردیتا ہے۔
Top