Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
اور اس کے سوا تم کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے ؟ اے پروردگار ! ہم پر صبر و استقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو
(7:126) تنقم۔ توبیر کرتا ہے۔ تو انکار کرتا ہے۔ تو عیب دیتا ہے۔ تو پسند کرتا ہے (باب ضرب، سمع) نقم سے جس کے معنی غصہ ہونے ۔ ناپسند کرنے اور انکار کرنے کے ہیں خواہ اس کا اظہار زبان سے ہو یا سزا دے کر۔ مضارع واحد مذکر حاضر۔ ما استفہامیہ ہے۔ افرغ علینا۔ تو ہم پر بہا دے۔ تو انڈیل دے۔ دہانہ کھول دے۔ افرغ (افعال) جس کے معنی بہانا یا دہانہ کھولنے کے ہیں۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ یہاں ایک مادی چیز کے طور پر صبر کے بہانے اور دہانہ کھولنے کا سوال کیا جا رہا ہے ۔ یعنی صبر ان پر اس طرح بہایا جائے کہ وہ سب سے چھا جائے گویا بمنزلہ ظرف کے ہو اور مانگنے والے بمنزلہ مظروف فیہ کے۔
Top