Al-Quran-al-Kareem - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر اس کے بعد اللہ توبہ کی توفیق دے گا جسے چاہے گا اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ثُمَّ يَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ : چناچہ غزوۂ حنین کے تقریباً بیس روز بعد ہوازن کے بقیہ لوگ مسلمان ہو کر جعرانہ کے مقام پر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ ﷺ کا ان لوگوں سے رضاعی رشتہ بھی تھا، کیونکہ آپ کی رضاعی ماں حلیمہ ؓ انھی سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مسلمان ہونے کی توفیق بخشی، یہ اپنے اموال اور قیدی واپس لینے کی درخواست لے کر آئے۔ آپ نے فرمایا : ”تم نے آنے میں دیر کردی، میں نے غنیمت تقسیم کرنے سے پہلے تمہارا بہت انتظار کیا، اب دیکھ رہے ہو یہ لشکر میرے ساتھ ہے، اب ایک چیز کا انتخاب کرلو، یا اپنے اموال لے لو یا قیدی۔“ انھوں نے کہا، آپ ہمارے قیدی آزاد کردیں۔ چناچہ آپ نے ان کے قیدی جو ابن کثیر کے مطابق (عورتیں بچے ملا کر) چھ ہزار تھے، سب مسلمانوں کو ترغیب دلا کر آزاد کردیے، البتہ مال غنیمت واپس نہیں کیا۔ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالیٰ : (ویوم حنین۔۔) : 4318، 4319 ] حافظ ابن قیم ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے غزوات کا آغاز بدر سے اور خاتمہ حنین سے کیا، اس لیے یہاں دونوں کو یکے بعد دیگرے ملا کر ذکر فرمایا، ان دونوں کے درمیان سات سال کا فاصلہ تھا، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے مقابلے میں عرب کی جنگ کا انگارا بجھ گیا۔ پہلی جنگ نے انھیں خوف زدہ کرکے ان کی قوت توڑ دی تھی، آخری جنگ نے ان کی قوت کا خاتمہ کردیا، ان کا اسلحہ بےاثر کردیا اور ان کی جماعت کو اس طرح پیسا کہ ان کے لیے اسلام میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ادھر اس آخری جنگ میں مسلمانوں کو یہ سبق بھی خوب یاد کروا دیا کہ جنگ میں فتح تمہاری کثرت یا اسلحہ کی برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ دین کی برکت اور اللہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔
Top