Tafseer-e-Saadi - At-Tawba : 27
ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر يَتُوْبُ : توبہ قبول کرے گا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ : جس کی چاہے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر خدا اس کے بعد جس پر چاہے مہربانی سے توجہ فرمائے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 27 اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے بہت سی لڑائیوں اور جنگی معرکوں میں انہیں اپنی نصرت سے نوازا حتٰی کہ ” حنین ‘ کی جنگ میں جب کہ وہ انتہائی شدید صورت حال سے دوچار تھے ‘ وہ دیکھ رہے تھے کہ لوگ ان کو چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور زمین اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہورہی ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ بنو ہوازن آپ پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ چناچہ آپ صحابہ کرام ؓ اور فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے قریش کو ساتھ لے کر مقابلے کے لیے نکلے اس وقت ان کی تعداد بارہ ہزار اور مشرکین کی تعداد چارہزار تھی۔ کچھ مسلمانوں نے اس کثرت تعداد پر اتراتے ہوئے کہا ” آج ہم پر کوئی غالب نہیں آسکے گا “۔ جب بنو ہوازن اور مسلمانوں کی مڈبھیڑ ہوئی ہو انہوں نے مسلمانوں پر یک بارگی حملہ کیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے اور شکست کھا کر بھا گے اٹھے اور انہوں نے پلٹ کر ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سو کے لگ بھگ آدمی رہ گئے تھے جو نہایت ثابت قدمی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ڈٹے مشرکین سے لڑ رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے خچر کو ایڑ لگا رک مشرکین کی طر پیش قدمی کررہے تھے اور فرما رہے تھے ” میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ‘ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں “۔ جب آپ نے مسلمانوں کی یہ ہزیمت دیکھی تو آپ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب کو جو کہ بلد آواز شخص تھے حکم دیا کہ وہ انصار اور باقی مسلمانوں کو آواز دیں۔ چناچہ انہوں نے پکار کر کہا :” اے اصحاب بیعت رضوان ! اے اصحاب سورة بقرہ “ جب بھاگنے والوں نے حضرت عباس ؓ کی آواز سنی تو وہ یک بارگی واپس پلٹے اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو زبردست شکست سے دوچار کیا۔ میدان جنگ مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ ان کے اموال اور عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا “ ” یقیناََ اللہ نے تمہارے مدد فرمائی بہت سی جگہوں میں اور حنین کے دن “ حنین “ مکہ مگکرمہ اور طائف کے ردمیان وہ مقام ہے جہاں حنین کا معرکہ ہوا تھا ” جب تمہیں تمہاری کثرت نے گھمنڈ میں مبتلا کردیا پس اس نے تمہیں کچھ فائدہ نہیں دیا “ تمہاری کثرت نے تمہیں تھوڑا یا زیادہ کچھ بھی فائدہ نہ دیا۔ (وضاقت علیکم الارض) ” اور زمین تم پر تنگ ہوگئی۔ “ یعنی جب تمہیں شکست ہوئی اور تم پر غم و ہموم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور تم پر زمین تنگ ہوگئی۔ (بمارحبت) ” اپنی کشادگی اور وسعت کے باوجود “ (آیت) ” پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ ‘ (آیت) ” پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکنیت نازل فرمائی “ سکنیت اس کیفیت کا نام ہے جو دل کو ہلا دینے والے تباہ کن واقعات اور زلزلوں کے وقت اللہ تعالیٰ دل میں پیدا کرتا ہے جو دل کو سکون عطا کر کے مطمئن کرتی ہے۔ یہ سکون قلب بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے (وانزل جنودا لم تردھا) ” اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے “ وہ فرشتے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حنین کی جنگ میں مسلمانوں کی مدد کے لئے نازل فرمایا جو مسلمانوں کو ثابت قدم رکھتے تھے اور انہیں فتح و نصرت کی خوشخبری دیتے تھے۔ (وعذب الذین کفروا ) ” اور کافروں کو عذاب دیا “ اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست، قتل، ان کے اموال و اولاد اور ان کی عورتوں پر مسلمانوں کے قبضہ کے ذریعے سے عذاب کا مزا چکھا دیا۔ (وذلک جزآء الکفرین) ” اور یہ ہے سزا کافروں کی “ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی عذاب دے گا اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ (آیت) ” پھر اللہ اس کے بعد جس پر چاہتا ہے، رجوع فرماتا ہے “ اللہ تبارک و تعالیٰ نے، ہوازن کے کفار میں سے جن کے ساتھ جنگ ہوئی، اکثر کی توبہ قبول فرما لی اور وہ اسلام قبول کر کے تائب ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے ان کی عوتریں اور بچے واپس کردیئے۔ (آیت) ” اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ بےانتہا مغفرت اور بےپایاں رحمت اک مالک ہے، وہ توبہ کرنے والے کے بڑے بڑے گناہ بخش دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو توبہ اور اطاعت کی توفیق عطا کر کے، ان کے جرائم سے درگزر کر کے اور ان کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم کرتا ہے۔ پس کسی نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو، اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
Top