Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ
: اور داو ود
وَسُلَيْمٰنَ
: اور سلیمان
اِذْ
: جب
يَحْكُمٰنِ
: فیصلہ کر رہے تھے
فِي الْحَرْثِ
: کھیتی (کے بارہ) میں
اِذْ
: جب
نَفَشَتْ
: رات میں چوگئیں
فِيْهِ
: اس میں
غَنَمُ الْقَوْمِ
: ایک قوم کی بکریاں
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
لِحُكْمِهِمْ
: ان کے فیصلے (کے وقت)
شٰهِدِيْنَ
: موجود
اور داؤد اور سلیمان کو یاد کرو جبکہ وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ دے رہے تھے جبکہ اس میں قوم کی بکریاں روندی گئی تھیں، اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے۔
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا تذکرہ، ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اکرام اور انعام کا تذکرہ فرمایا ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر فرمایا تھا۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے علم اور حکمت سے نوازا اور طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائیں۔ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مسخر فرما دئیے جو ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح میں مشغول رہتے تھے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا مسخر فرما دی اور جنات کو ان کا تابع کردیا۔ کھیت اور بکریوں کے مالکوں میں جھگڑا اور اس کا فیصلہ شروع میں ایک جھگڑے کا اور اس جھگڑے کے فیصلہ کا تذکرہ فرمایا جس کا واقعہ یوں ہے کہ دو شخص حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک شخص بکریوں والا اور دوسرا کھیتی والا تھا۔ کھیتی والے نے بکریوں والے پر یہ دعویٰ کیا کہ اس کی بکریاں رات کو چھوٹ کر میرے کھیت میں گھس گئیں اور کھیت کو بالکل صاف کردیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ بکریوں والا اپنی ساری بکریاں کھیت والے کو دے دے۔ یہ دونوں مدعی اور مدعا علیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت سے واپس ہوئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تمہارے مقدمہ کا فیصلہ کیا ہوا ؟ دونوں فریق نے بیان کیا تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر اس مقدمے کا فیصلہ میں کرتا تو فریقین کے لیے مفید اور نافع ہوتا۔ پھر خود والد صاحب حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر یہی بات عرض کی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے تاکید کے ساتھ دریافت کیا کہ وہ کیا فیصلہ ہے ؟ اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ آپ بکریاں تو سب کھیت والے کو دے دیں تاکہ وہ ان کے دودھ اور اون وغیرہ سے فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت کی زمین بکریوں والے کے سپرد کردیں۔ وہ اس میں کاشت کر کے کھیت اگائے۔ جب یہ کھیت اس حالت پر آجائے جس پر بکریوں نے کھایا تھا تو کھیت، کھیت والے کو اور بکریاں بکری والے کو واپس کردیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس فیصلہ کو پسند کیا اور فرمایا بس اب یہی فیصلہ رہنا چاہیے اور فریقین کو بلا کر یہ فیصلہ نافذ کردیا۔ اسی کو فرمایا (فَفَھَّمْنٰھَا سُلَیْمٰنَ ) (سو ہم نے یہ فیصلہ سلیمان کو سجھا دیا) (کُلًّا اٰتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا) (اور ہم نے دونوں کو حکمت اور علم عطا فرمایا) اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے دونوں ہی کے درست تھے۔ صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں یعنی داؤد (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی خلاف شرع نہ تھا۔ جس قدر کھیت کا نقصان ہوا تھا، اس کی لاگت بکریوں کی قیمت کے برابر تھی۔ داؤد (علیہ السلام) نے ضمان میں کھیت والے کو بکریاں دلوا دیں اور قانون کا یہی تقاضا تھا جس میں مدعی اور مدعی علیہ کی رضا شرط نہیں مگر چونکہ اس میں بکریوں والوں کا بالکل ہی نقصان ہوتا تھا اس لیے سلیمان (علیہ السلام) نے بطور مصالحت کے دوسری صورت تجویز فرما دی جو باہم جانبین کی رضا مندی پر موقوف تھی اور جس میں دونوں کی سہولت اور رعایت تھی کہ چند روز کے لیے بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں جو ان کے دودھ وغیرہ سے اپنا گزارا کرلے اور بکری والے کو وہ کھیت سپرد کردیا جائے جو بکریوں نے خراب کردیا تھا۔ وہ آب پاشی وغیرہ کرے جب کھیت پہلی حالت پر آجائے تو کھیت اور بکریاں ان کے اپنے اپنے مالکوں کو دے دی جائیں۔ کذا فی الدر المنثور عن ابن مسعود و مسروق و ابن عباس و مجاھد و قتادہ و الزھری۔ (ص 324 ؍ ج 4) اس سے معلوم ہوگیا کہ دونوں فیصلوں میں کوئی تعارض نہیں کہ ایک کی صحت دوسرے کی عدم صحت کو مقتضی ہو۔ اسی لیے (وَ کُلاًّ اٰتَیْنَا حُکْمًا وَّ عِلْمًا) بڑھا دیا۔ انتھی۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) دونوں آپس میں باپ بیٹے تھے۔ حضرت محمد ﷺ کا فیصلہ : حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بکریوں کے کھیتی خراب کرنے پر جو فیصلہ دیا ان کا یہ فیصلہ اجتہاد سے تھا اور بالآخر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے صلح کرا دینے سے حل ہوگیا۔ حدیث کی کتابوں میں ایک واقعہ مروی ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ کی ایک اونٹنی بعض لوگوں کے باغ میں داخل ہوگئی اور ان کا باغ خراب کردیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ اہل جانور جو زخمی کر دے اس کا کوئی ضمان نہیں۔ اہل اموال پر لازم ہے کہ دن میں اپنے اموال کی حفاظت کریں اور اہل مواشی پر لازم ہے کہ رات کو انہیں محفوظ رکھیں اور یہ کہ رات کو جو جانور کوئی نقصان کر دے جانوروں کے مالک اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ (رواہ ابو داؤد و فی آخر کتاب البیوع و ابن ماجہ فی ابواب الاحکام) اور ایک حدیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ العجماء جرجھا جبار (رواہ البخاری) حضرات آئمہ کرام کے مذاہب معلوم کرنے کے لیے شرح حدیث اور کتب فقہ کی مراجعت کی جائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک اور واقعہ : صحیح بخاری میں اس طرح مروی ہے کہ دو عورتیں کسی جگہ موجود تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا ایک بیٹا بھی تھا۔ بھیڑیا جو آیا تو ایک کے لڑکے کو لے کر چلا گیا۔ ان میں سے ہر ایک دوسری سے یوں کہنے لگی کہ بھیڑیا تیرے بیٹے کو لے گیا اور یہ جو موجود ہے یہ میرا بیٹا ہے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ کرانے کے لیے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ انہوں نے (اپنے طور پر غور و خوض اور اجتہاد کر کے) بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا۔ واپس ہو کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر گزریں اور انہیں پورے واقعہ کی خبر دی۔ انہوں نے فرمایا چھری لے آؤ۔ میں اس لڑکے کو کاٹ کر تم دونوں کو آدھا آدھا دے دیتا ہوں۔ یہ سن کر چھوٹی عمر والی کہنے لگی اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجیے۔ (میں اپنا دعویٰ واپس لیتی ہوں) میں تسلیم کرتی ہوں کہ وہ اسی کا لڑکا ہے۔ اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فیصلہ دے دیا کہ وہ لڑکا چھوٹی ہی کا ہے۔ (صحیح بخاری ص 487) یہ کھیتی اور بکریوں والوں کا فیصلہ اور ان دو عورتوں کا فیصلہ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے دیا تھا، یہ دونوں وحی سے نہیں تھے، اجتہاد کے طور پر تھے۔ اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے اجتہاد سے دوسرا فیصلہ دے دیا جسے حضرت داؤد (علیہ السلام) نے بھی تسلیم فرما لیا۔ اس آخری قصہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بچہ کو چھری سے کاٹنے والی جو بات کی یہ ایک تدبیر تھی جس سے انہوں نے حقیقت حال تک پہنچنے کا راستہ نکال لیا۔ جب یہ فرمایا کہ چھری لاؤ میں اسے کاٹ کر آدھا آدھا کردیتا ہوں تو بڑی خاموش رہ گئی اور چھوٹی گھبرا گئی اور اس نے کہا کہ میں یہ مانتی ہوں کہ یہ اسی کا لڑکا ہے۔ اس کے تڑپنے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سمجھ لیا کہ یہ اسی کا بچہ ہے۔ اگر بڑی کا بچہ ہوتا تو وہ تڑپ اٹھتی۔ لیکن وہ چپکی کھڑی رہی جس سے معلوم ہوا کہ یہ بچہ چھوٹی کا ہے۔ لہٰذا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسی کے بارے میں فیصلہ فرما دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اقتدار، پہاڑوں اور پرندوں کا ان کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہونا حضرت داؤد و سلیمان ( علیہ السلام) دونوں آپس میں باپ بیٹے تھے۔ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سر فراز فرمایا تھا اور مال و دولت سے بھی۔ اور اقتدار سے بھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبور شریف بھی عطا فرمائی۔ سورة ص میں ان کے ایک فیصلہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا (یٰدَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاس بالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (اے داؤد ہم نے تم کو زمین پر حاکم بنایا ہے سو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا اور آئندہ بھی نفسانی خواہش کی پیروی مت کرنا کہ وہ اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے گی) سورة نمل میں فرمایا (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَّقَالاَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہٖ الْمُؤْمِنِیْنَ وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ وَقَال آیاََیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِِنَّ ھٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ) (اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریف کا اللہ تعالیٰ ہی مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں میں فضیلت دی اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا اے لوگو ہمیں جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے دیا گیا ہے بلاشبہ یہ کھلا ہوا فضل ہے) ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بھی بخشا تھا کہ پہاڑوں کو اور جانوروں کو مسخر فرما دیا تھا جو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول رہتے ہیں جس کا یہاں سورة انبیاء میں تذکرہ فرمایا ہے اور سورة سبا میں اور سورة ص میں بھی مذکور ہے۔ سورة سبا میں فرمایا (وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَ ) (اور ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے بڑی نعمت دی تھی۔ اے پہاڑو داؤد کے ساتھ بار بار تسبیح کرو اور پرندوں کو بھی حکم دیا اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا) اور سورة ص میں فرمایا (اِِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بالْعَشِیِّ وَالْاِِشْرَاقِ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَہٗ اَوَّابٌ) (ہم نے پہاڑوں کو حکم کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ شام اور صبح تسبیح کیا کریں اور پرندوں کو بھی، جو جمع ہوجاتے تھے سب ان کی وجہ سے مشغول ذکر رہتے) ۔ احادیث شریف سے ثابت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) بڑے خوش آواز تھے۔ اول تو ان کی خوش آوازی پھر اللہ کی تسبیح اور مزید اللہ تعالیٰ کا حکم سب باتیں مل کر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زبور پڑھتے وقت اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتے وقت عجیب سماں بندھ جاتا تھا۔ اڑتے ہوئے پرندے وہیں ٹھہر جاتے اور تسبیح میں مشغول ہوجاتے تھے اور پہاڑوں سے بھی تسبیح کی آواز نکلتی تھی۔ اس میں خوش آوازی کی کشش بھی تھی اور معجزہ بھی تھا۔ سورة بقرہ کی آیت (وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ) کی تفسیر میں ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ جن چیزوں کو ہم جمادات اور بےجان سمجھتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول رہتی ہیں۔ ہم سے چونکہ وہ بات نہیں کرتے اور جاندار چیزوں کی طرح پیش نہیں آتے۔ اس لیے ہم انہیں محروم سمجھتے ہیں لیکن ان کا اپنے خالق ومالک سے جو تعلق ہے وہ ادراک اور شعور والا تعلق ہے۔ وہ سب اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور جب اللہ کی مشیت ہوتی ہے تو انہیں بولنے کی قوت بھی دے دی جاتی ہے۔ زرہ بنانے کی صنعت : حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ جل شانہٗ نے ایک اور امتیازی انعام سے نوازا تھا اور وہ یہ کہ اللہ جل شانہٗ نے انہیں زرہ بنانا سکھایا تھا، پہلے زمانہ میں تلواروں سے جنگ ہوتی تھی تو مقابل کے حملہ سے بچنے کے لیے خود اور زرہ اور ڈھال استعمال کرتے تھے۔ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال لے کر دشمن سے لڑتے تھے۔ اور لوہے کی زرہ پہن لیتے تھے۔ یہ ایک قسم کا کرتہ ہوتا تھا جو لوہے سے بنایا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص تلوار کا وار کرتا تھا تو سر خود کے ذریعہ اور سینہ اور کمر زرہ کے ذریعہ کٹنے سے بچ جاتے تھے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پہلے جو زرہیں بنائی جاتی تھیں وہ لوہے کی تختیاں ہوتی تھیں جنہیں کمر اور سینہ پر باندھ لیتے تھے۔ سب سے پہلے زرہ بنانے والے حضرت داؤد (علیہ السلام) ہیں۔ یہاں سورة الانبیاء میں فرمایا (وَ عَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ ) (اور ہم نے انہیں زرہ کی صنعت سکھا دی جو تمہارے لیے نفع مند ہے (لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَاْسِکُمْ ) (تاکہ وہ تمہیں ایک دوسرے کی زد سے بچائے) اور سورة سبا میں فرمایا (وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَاَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ) (اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو نرم کردیا کہ تم پوری زرہیں بناؤ اور جوڑنے میں اندازہ رکھو، اور تم سب نیک کام کیا کرو بلاشبہ میں تمہارے سب اعمال کو دیکھنے والا ہوں) اللہ تعالیٰ شانہٗ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے لوہے کو نرم فرما دیا۔ وہ اپنی انگلیوں سے لوہے کے تار بنا لیتے تھے۔ پھر ان کے حلقے بناتے تھے اور ان حلقوں کو جوڑ کر زرہ بنا لیتے تھے۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) روزانہ ایک زرہ بنا لیتے تھے اور اسے چھ ہزار درہم میں فروخت کردیتے تھے جن میں دو ہزار اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت کے لیے خرچ کرتے تھے اور چار ہزاردرہم بنی اسرائیل کو خبز الحواری یعنی میدہ کی روٹی کھلانے پر خرچ فرماتے تھے۔ (ص 527، ج 3) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے جو دو فیصلے اوپر مذکور ہوئے جن کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دوسرے فیصلے دیئے۔ ان سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اگر کسی قاضی نے اپنے اجتہاد سے کوئی فیصلہ کردیا پھر اس کے خلاف خود اس کے اپنے اجتہاد سے یا کسی دوسرے حاکم یا عالم کے بتانے سے معلوم ہوجائے کہ فیصلہ غلط ہوا ہے تو اپنا فیصلہ واپس لے کر دوسرا صحیح فیصلہ نافذ کر دے۔ یہ اجتہاد کی شرط اس لیے لگائی گئی کہ نصوص قطعیہ کے خلاف فیصلہ حرام ہے اور نصوص شرعیہ کے ہوتے ہوئے اجتہاد کرنا بھی حرام ہے۔ امام دارقطنی (رح) نے اپنی سنن میں حضرت عمر ؓ کا ایک خط نقل کیا ہے جو امور قضا سے متعلق ہے۔ وہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے جو حکام اور قضاۃ کے لیے ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ عن سعید بن ابی بردۃ و اخرج الکتاب فقال ھذا کتاب عمر، ثم قری علی سفیان من ھاھنا الی ابی موسیٰ الاشعری، اما بعد فان القضاء فریضۃ محکمۃ و سنۃ متبعۃ، فافھم اذا ادلی الیک، فانہ لا ینفع تکلم بحق لا نفاذ لہ آس بین الناس فی مجلسک ووجھک، وعدلک حتی لا یطمع شریف فی حیفک، ولا یخاف ضعیف جورک، البینۃ علی من ادعی، والیمین علی من انکر، الصلح جائز بین المسلمین، الا صلحا احل حراما او حرم حلالا، لا یمنعک قضاء قضیتہ بالامس راجعت فیہ نفسک وھدیت فیہ لرشدک ان تراجع الحق، فان الحق قدیم، و ان الحق لا یبطلہ شیء، و مراجعۃ الحق خیر من التمادی فی الباطل، الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک، ممالم یبلغک فی القرآن والسنۃ، اعرف الامثال والاشباہ، ثم قس الامور عند ذلک، فاعمد الی احبھا الی اللّٰہ، و اشبھھا بالحق فیما تری، واجعل للمدعی امدا ینتھی الیہ، فان احضر بینۃ والا وجھت علیہ القضاء فان ذالک اجلی للعمی، وابلغ فی العذر، المسلمون عدول بینھم بعضھم علی بعض، الا مجلودا فی حدا و مجربا فی شھادۃ زور، او ظنینا فی ولا او قرابۃ، فان اللّٰہ تولی منکم السرائر، ودرا عنکم بالبینات، ثم ایاک والضجر والفلق والتادی بالناس، والتنکر للخصوم فی مواطن الحق التی یوجب اللّٰہ بھا الاجر ویحسن بھا الذکر، فانہ من یخلص بینۃ فیما بینہ و بین اللّٰہ، یکفہ اللّٰہ مابینہ و بین الناس، و من تزین للناس بما یعلم اللّٰہ منہ غیر ذلک، شانہ اللّٰہ۔ (2) یہ خط امام دارقطنی نے کتاب الاقضیۃ والاحکام میں نقل کیا ہے۔ افادۃ للعوام اس کا ترجمہ لکھا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن ابی بردہ نے ایک خط نکالا اور بیان کیا کہ یہ خط حضرت عمر ؓ کا ہے جو انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو لکھا تھا۔ امابعد ! جان لینا چاہیے کہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا ایک محکم فریضہ ہے اور ایک ایسا طریقہ ہے جسے اختیار کرنا ضروری ہے۔ سو تم یہ سمجھ لو کہ جب تمہارے پاس مقدمہ کوئی لے کر آئے تو جو حق فیصلہ ہو وہ نافذ کر دو ۔ کیونکہ وہ حق بات فائدہ نہیں دیتی جسے نافذ نہ کیا جائے۔ اپنی مجلس میں اور اپنے سامنے بٹھانے میں اور انصاف کرنے میں لوگوں کے درمیان برابری رکھو تاکہ کوئی صاحب حاجت یہ لالچ نہ کرے کہ اس کی وجہ سے دوسرے پر ظلم کر دو گے اور کوئی کمزور اس بات سے خائف نہ ہو کہ اس پر ظلم کر دو گے۔ گواہ مدعی پر ہیں اور قسم منکر پر ہے۔ مسلمانوں کے درمیان صلح کرنا جائز ہے لیکن ایسی کوئی صلح نہیں ہوسکتی جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دے۔ کل جو کوئی فیصلہ تم کرچکے ہو اور اس کے بعد صحیح بات سمجھ میں آگئی تو حق کی طرف رجوع کرنے سے تمہارا سابق مانع نہ بن جائے۔ کیونکہ حق اصل چیز ہے اور حق کو کوئی چیز باطل نہیں کرسکتی۔ حق کی طرف رجوع کرنا باطل پرچلتے رہنے سے بہتر ہے۔ جو چیز تمہارے سینہ میں کھٹکے اسے خوب سمجھنے کی کوشش کرو۔ اگر یہ ان چیزوں میں سے ہو جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں سے کوئی بات نہیں پہنچی (اگر قرآن و حدیث کی بات موجود ہو پھر اسی پر عمل کرنا لازم ہو) تو امثال و اشباہ کو پہچانو۔ پھر ان پر دوسری چیزوں کو قیاس کرو اور ان میں جو چیز اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ حق کے مشابہ ہو اس کے مطابق فیصلہ کرنا اور مدعی کے لیے ایک مدت مقرر کر دو جس میں وہ اپنے گواہ لے آئے۔ اگر گواہ حاضر کر دے تو قانون کے مطابق فیصلہ کر دو ۔ اگر وہ گواہ نہ لائے تو اس کے خلاف فیصلہ دے دو ۔ گواہ لانے کے لیے مدت مقرر کرنا یہ نامعلوم حقیقت کو زیادہ واضح کرنے والی چیز ہے اور اس میں صاحب عذر کو انجام تک پہنچانے کا اچھا ذریعہ ہے۔ مسلمان آپس میں عدول ہیں۔ ایک کی گواہی دوسرے کے بارے میں قبول کی جاسکتی ہے لیکن جسے حد قذف کی وجہ سے (یعنی تہمت لگانے پر) کوڑے لگائے ہوں یا جس کے بارے میں تجربہ ہو کہ وہ جھوٹی گواہی بھی دیتا ہے یا کسی رشتہ داری کے معاملہ میں وہ متہم ہے (یعنی رشتہ داری کی رعایت کر کے جھوٹی گواہی دیتا ہے) تو ایسے لوگوں کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ سب کی پوشیدہ باتیں اور پوشیدہ ارادے جانتا ہے۔ (وہ اس کے مطابق فیصلے کرے گا اور اس دنیا میں مخلوق کے درمیان گواہوں پر فیصلے رکھ دیئے ہیں) گواہ جھگڑوں کو ختم کرنے والے ہیں اور لوگوں کے آنے سے تنگ دل مت ہونا۔ تکلیف محسوس نہ کرنا اور پریشان نہ ہونا۔ جو لوگ فیصلے کرانے کے لیے آئیں ان سے الگ ہو کر مت بیٹھ جانا۔ ان کے فیصلے حق کے موافق کرنا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ ثواب دیتا ہے اور لوگ اچھائی سے یاد کرتے ہیں جس کی نیت اللہ کے اور اس کے اپنے درمیان خالص ہو اللہ تعالیٰ ان مشکلات کی کفایت فرماتے ہیں جو لوگوں کے تعلقات کی وجہ سے پیش آتی ہیں اور جو شخص ظاہری طور پر اچھا بنے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسا نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے عیوب کو ظاہر فرما دیں گے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کی تسخیر (وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً ) (الایتین) ان دونوں آیتوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اقتدار بیان فرمایا۔ ان کی حکومت نہ صرف انسانوں پر تھی بلکہ ہوا اور جنات بھی ان کے تابع تھے۔ سورة ص میں فرمایا (قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَھَبْ لِیْ مُلْکًا لاَّ یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ اِِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّغَوَّاصٍ وَّآخَرِیْنَ مُقَرَّنِیْنَ فِی الْاَصْفَادِ ) سلیمان نے دعا مانگی اے میرے رب میرا قصور معاف فرما اور مجھ کو ایسی سلطنت دے جو میرے بعد میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ آپ بڑے دینے والے ہیں۔ سو ہم نے ہوا کو ان کے تابع کردیا۔ وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے نرمی سے چلتی اور جنات کو بھی ان کا تابع کردیا۔ یعنی تعمیر بنانے والوں کو بھی اور غوطہ خوروں کو بھی اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو یہ دعا کی تھی کہ اے رب مجھے ایسی حکومت عطا فرمایئے جو میرے بعد اور کسی کو نہ دی جائے ان کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ انہیں جنات پر بھی اقتدار دے دیا اور ہوا بھی ان کے لیے مسخر فرما دی جو خوب تیزی سے چلتی تھی جو انہیں اور ان کے لشکروں کو ذرا سی دیر میں دراز مسافت پر پہنچا دیتی تھی اور ان کے حکم کے مطابق چلتی تھی۔ کبھی خوب تیز جسے سورة الانبیاء میں عاصفۃ سے تعبیر فرمایا اور کبھی آہستہ جسے سورة ص میں رخاء سے تعبیر فرمایا۔ اس کی تیز رفتاری کے بارے میں سورة سبا میں (غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْرٌ) فرمایا ہے۔ جب آپ کو کہیں جانا ہوتا تو ہوا آپ کو اور آپ کے لشکر کو (جو انسانوں اور جنات اور پرندوں پر مشتمل ہوتا تھا) آپ کے حکم کے مطابق اسی منزل پر پہنچا دیتی تھی جہاں جانا ہوتا تھا۔ آپ شیاطین سے بھی کام لیتے تھے۔ شیاطین کو سزا بھی دیتے تھے اور انہیں زنجیروں میں باندھ کر بھی ڈالتے تھے جس پر وہ چوں نہیں کرسکتے تھے۔ جنات سے وہ سمندروں میں غوطے لگانے کا کام بھی لیتے تھے۔ وہ ان کے حکم سے غوطے لگاتے تھے اور سمندر سے قیمتی چیزیں نکال کر لاتے تھے اور ان سے مکانات بھی تعمیر کراتے تھے۔ جیسا کہ سورة ص میں فرمایا (وَ الشَّیَاطِیْنَ کُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ ) اور دیگر کاموں میں بھی استعمال کرتے تھے۔ جس کا ذکر سورة سبا میں فرمایا ہے۔ (یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَایَشَآءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَ جِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَ قُدُوْرٍ رَّاسِیَاتٍ ) (وہ جنات ان کے لیے وہ وہ چیزیں بناتے تھے جو ان کو منظور ہوتا بڑی بڑی عمارتیں اور مورتیں اور لگن جیسے حوض اور دیگیں جو ایک ہی جگہ جمی رہیں) ۔ رسول اللہ ﷺ کا شیطان کو پکڑ لینا : ایک مرتبہ ایک سر کش جن کہیں سے چھوٹ کر آگیا۔ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس جن نے کوشش کی کہ آپ کی نماز تڑوا دے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر قابو دے دیا۔ آپ نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ پھر صبح آپ نے صحابہ کرام کو اس کا یہ قصہ بتایا اور فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح ہو تو تم سب اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی۔ انہوں نے دعا کی تھی (رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَھَبْ لِیْ مُلْکًا لاَّ یَنْبَِغِیْ لِاَحَدٍ مّنْ بَعْدِیْ ) (لہٰذا میں نے اسے چھوڑ دیا) سو اللہ نے اسے ذلیل کرکے واپس لوٹا دیا۔ یہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے۔ (راجع صحیح البخاری ومسلم) اور حضرت ابو الدرداء ؓ کی روایت میں یوں ہے کہ اللہ کا دشمن ابلیس ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ میرے چہرہ پر ڈالے۔ میں نے تین مرتبہ اعوذ باللہ منک کہا تین بار العنک بلعنۃ اللہ التامۃ کہا۔ وہ اس پر نہ ہٹا تو میں نے چاہا کہ اسے پکڑ لوں۔ اللہ کی قسم اگر ہمارے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی تو میں اسے باندھ لیتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ صبح تک بندھا رہتا اور اس سے مدینہ کے بچے کھیلتے۔ (صحیح مسلم، ص 205، ج 1) سانپوں کو حضرت نوح اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا عہد یاد دلانا سنن الترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم اپنے گھر میں سانپ دیکھو تو کہو انا نسئلک بعھد نوح و بعھد سلیمان بن داؤد ان لا توذینا (ہم تجھے وہ عہد یاد دلاتے ہیں جو تو نے نوح اور سلیمان بن داؤد ( علیہ السلام) سے کیا تھا کہ تو ہمیں تکلیف نہ دے) پھر اس کے بعد بھی ظاہر ہوجائے تو اسے قتل کر دو ۔ اور جب انسانوں پر اور جنات پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت تھی تو ظاہر ہے کہ ہر طرح کے جانوروں پر بھی تھی۔ ان میں زہریلے جانور بھی تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سانپوں کے زہر اتارنے کے الفاظ کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر پیش کرو۔ چناچہ آپ پر پیش کیا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اس معاہدہ کے الفاظ ہیں جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے زہریلے جانوروں سے لیا تھا۔ الفاظ یہ ہیں بسم اللہ شجۃ قرنیۃ ملحۃ بحر قفطا۔ (الدر المنثورص 327، ج 4)
Top