Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ
: اور داو ود
وَسُلَيْمٰنَ
: اور سلیمان
اِذْ
: جب
يَحْكُمٰنِ
: فیصلہ کر رہے تھے
فِي الْحَرْثِ
: کھیتی (کے بارہ) میں
اِذْ
: جب
نَفَشَتْ
: رات میں چوگئیں
فِيْهِ
: اس میں
غَنَمُ الْقَوْمِ
: ایک قوم کی بکریاں
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
لِحُكْمِهِمْ
: ان کے فیصلے (کے وقت)
شٰهِدِيْنَ
: موجود
اور حضرت دائود اور حضرت سلیمان پر بھی ہم نے اپنا فضل کیا، یاد کرو جب وہ دونوں ایک کھیتی کے مقدمے کا فیصلہ کررہے تھے جبکہ اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں شب میں جا پڑی تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ کررہے تھے۔
وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْیَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْنَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ ج وَکُنَّا لِحُکْمِھِمْ شٰھِدِیْنَ ۔ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنِ ج وَکلُاًّ اٰ تَیْنَا حُکْمًا وَّ عِلْمًا ز وَ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَالْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ ط وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ ۔ (الانبیاء : 78، 79) (اور حضرت دائود اور حضرت سلیمان پر بھی ہم نے اپنا فضل کیا، یاد کرو جب وہ دونوں ایک کھیتی کے مقدمے کا فیصلہ کررہے تھے جبکہ اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں شب میں جا پڑی تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کا مشاہدہ کررہے تھے۔ سو ہم نے سمجھادیا وہ معاملہ سلیمان (رح) کو اور ہم نے ان سب کو بخشا تھا حکم اور علم، اور ہم نے مسخر کردیا تھا دائود (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو، وہ سب ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے اور یہ سب کچھ ہم ہی کرنے والے تھے۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ … دونوں منصوب ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں سے پہلے کوئی فعل محذوف ہے جس کے یہ مفعول ہیں۔ یہاں سخرنا یا اس کے ہم معنی کوئی فعل محذوف مانا جاسکتا ہے۔ نفش … کا معنی بکریوں یا مویشیوں کا رات کے وقت کسی فصل میں گھس جانا اور اسے اجاڑ دینا ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کا ایک مقدمے کی طرف اشارہ اس آیت کریمہ سے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں جن کمالات سے نوازا اور ان پر جو احسانات کیے ان میں سے چند ایک کا اجمالاً تذکرہ کیا گیا ہے۔ کمالات اور احسانات کا ذکر کرنے سے پہلے نہایت اختصار سے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس سے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام کمالات اور فضائل کے باوجود اپنی طبیعت میں ایسی سلامتی رکھتے تھے کہ بیٹا اپنے فہم و فراست کو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور امانت سمجھ کر اپنے جلیل القدر باپ کے سامنے نہایت احتیاط سے اظہار ضروری سمجھتا تھا اور باپ اپنے تمام کمالات کے باوصف نوخیز اور نوعمر بیٹے کی بات کو کماحقہ وزن دیتا تھا اور دونوں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے تھے۔ باپ خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا سعادت مند بیٹا عطا فرمایا ہے اور بیٹا ہر وقت مستعد تھا کہ مجھے اپنے باپ کے فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کس طرح حصہ لے کر اپنے باپ کے لیے سہولت پیدا کرنا ہے۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے نہ تو قرآن کریم میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ حدیث رسول ﷺ میں اس کی تفصیل ملتی ہے۔ البتہ ! کتبِ تفسیر میں اس واقعہ کی جو تفصیل مذکور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی بکریاں رات کے وقت کسی شخص کے کھیت میں گھس گئیں اور اسے پامال کر ڈالا۔ کھیت والا دادرسی کے لیے حضرت دائود (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ( علیہ السلام) نے بکریوں کے مالک کو بلایا، دونوں کے بیان لیے۔ بیان سن کر آپ ( علیہ السلام) اس نتیجے پر پہنچے کہ بکریوں کے مالک نے اپنی بکریوں کا ریوڑ سنبھالنے میں کوتاہی کی ہے اور کھیت والے کی فصل اجاڑ دی ہے۔ اب اس کا تاوان یہ ہے کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں کیونکہ کھیت والے کا جتنا نقصان ہوا ہے بکریوں کی قیمت اندازاً اس کے لگ بھگ ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو نوعمری کی وجہ سے ابھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے البتہ اپنے عظیم باپ کے پاس بیٹھ کر علم و حکمت سے استفادہ کرتے تھے۔ انھوں نے یہ فیصلہ سن کر کمسن ہونے کے باوجود اس سے اختلاف کیا اور نہایت ادب سے عرض کی کہ اگر مجھے اجازت ہو تو میں اس کا ایک دوسرا حل تجویز کرنا چاہتا ہوں۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) نے یہ کہا کہ بکریاں عارضی طور پر کھیت والے کو دے دی جائیں، وہ ان کا دودھ پیئے اور دوسرے فوائد حاصل کرے اور بکریوں والے کو حکم دیا جائے کہ وہ اجڑے ہوئے کھیت میں محنت کرے اور نئے سرے سے فصل کاشت کرے اور جب وہ پروان چڑھ کر اپنی اصل حالت پر آجائے تو کھیت والے کو اس کا کھیت دے دیا جائے اور بکریوں کے مالک کو اس کی بکریاں واپس کردی جائیں۔ یہ فیصلہ سن کر حضرت دائود (علیہ السلام) کو حد درجہ خوشی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے ایسا ہونہار فرزند عطا فرمایا ہے۔ پروردگار نے دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ سلیمان ( علیہ السلام) نے جو کچھ کہا وہ ان کی اپنی فہم و فراست کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ ہماری عطا و بخشش تھی۔ حکم اور علم دونوں کو یکساں عطا کیا گیا تھا، یعنی دونوں باپ اور بیٹا بیک وقت پیغمبر بھی تھے اور حکمران بھی لیکن یہ ہماری دین ہے کہ ہم حکمت عطا کرنے میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہم نے فہم و فراست میں حصہ وافر عطا فرمایا تھا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے کی بات کو نہایت خوشی سے قبول کرنا دراصل اس بات کا اظہار تھا کہ وہ فیصلہ کرنے میں حد درجہ محتاط واقع ہوئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی انسان ہوتے ہیں، وہ جب کسی معاملے میں فیصلہ اجتہاد سے کرتے ہیں تو اس میں فروگزاشت کا امکان ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو غلطی پر باقی نہیں رہنے دیتا۔ وحی کے ذریعے اس کی اصلاح کردی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ میرے بیٹے کو بھی چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی ہے ممکن ہے اس کا فیصلہ وحی الٰہی کا نتیجہ ہو اور اس کے ذریعے سے میری اجتہادی غلطی کی اصلاح مقصود ہو۔ اس فیصلے اور واقعہ کی تفصیل چونکہ قرآن و سنت میں مذکور نہیں اس لیے ہمارے فقہائے کرام نے اسے اپنے فیصلوں کی بنیاد نہیں بنایا۔ البتہ ! ترمذی شریف میں ایک حدیث میں ایک صاحب کی شکایت بیان کی گئی ہے جسے کسی دوسرے صاحب کے جانور نے نقصان پہنچایا تھا اور یہ واقعہ چونکہ رات کے وقت پیش آیا تھا اس لیے نبی کریم ﷺ نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دن کے وقت بعض دفعہ مویشی کھلے ہوتے ہیں لیکن رات کے وقت حفاظت کے لیے باندھ کے رکھے جاتے ہیں۔ کسی جانور کا رات کے وقت نقصان پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مالک نے اس کی حفاظت میں کوتاہی کی ہے اس لیے اس پر نقصان کا تاوان عائد کیا جانا چاہیے۔ امامِ شافعی ( رح) نے اس سے یہ سمجھا کہ آنحضرت ﷺ نے یہ فیصلہ چونکہ رات کے حوالے سے کیا ہے اس لیے رات کے وقت نقصان کے ازالے کے لیے مویشی کے مالک پر تاوان عائد کیا جائے گا، البتہ دن کو نہیں۔ لیکن امام حنیفہ ( رح) فرماتے ہیں کہ تاوان کا تعلق رات یا دن سے نہیں بلکہ مالک کی تقصیر سے ہے وہ جس وقت بھی کوتاہی کرے اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔ یہ اتفاق ہے کہ واقعہ مذکورہ کا تعلق رات کے وقت سے ہے اور رات کو عام طور پر جانور باندھے جاتے ہیں لیکن اگر دن کے کسی وقت میں مالک کی کوتاہی سے کسی کو نقصان پہنچتا ہے تو جرمانہ اسے بھی ادا کرنا ہوگا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں ہمارے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اگر عدالت کے دو فیصلے باہم متضاد ہوں لیکن فیصلہ دینے والے دونوں قاضی قضا کی صلاحیت رکھتے ہوں اور کوئی شخص بھی نیت میں خرابی نہ رکھتا ہو تو دونوں فیصلے متضاد ہونے کے باوجود برسرحق سمجھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں یقینا دونوں میں سے ایک ہی صحیح ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کسی بھی مجتہد کو جس نے حُسنِ نیت اور محنت سے فیصلہ دیا ہو غلطی بتا کر شرمندہ نہیں فرمائے گا۔ البتہ ! یہ ضرور ہے کہ تحکیم اور قضاء ایک نازک معاملہ ہے اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے قاضی وہ ہیں جو فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر فیصلہ دیتے ہوں۔ یہ غلطی بھی کریں گے تب بھی اللہ تعالیٰ انھیں جنت عطا فرمائے گا اور دوسری قسم کے قاضی وہ ہیں جو سرے سے فیصلہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صلاحیت سے تو بہرہ ور ہیں لیکن ان میں نہ حُسنِ نیت پایا جاتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کا خوف۔ یہ دونوں قسم کے قاضی جہنم میں جائیں گے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کی درویشی تسخیر کا معنی ہوتا ہے، کسی کو کسی کی خدمت میں لگا دینا یا اس کے تابع کردینا۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا، لیکن اس کے بعد مَعْہٗ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لہکا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں اور پرندوں کو حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح میں اس طرح ہمنوا بنادیا گیا تھا کہ جیسے ہی آپ ( علیہ السلام) رات کے پچھلے پہر یا طلوع سحر کے وقت پہاڑوں کے دامن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کرتے اور پرندے بھی ہجوم در ہجوم آپ ( علیہ السلام) کے گرد جمع ہو کر تسبیح میں مصروف ہوجاتے۔ آپ ( علیہ السلام) کو اس کے لیے حکم دینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ ان کی تسخیر اسی مقصد کے لیے کی گئی تھی کہ جیسے ہی وہ آپ ( علیہ السلام) کی آواز سنیں آپ ( علیہ السلام) کی ہمنوائی میں تسبیح کرنا شروع کردیں۔ تسخیر کا مفہوم بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) چونکہ نہایت خوش الحان تھے۔ آپ ( علیہ السلام) کی نہایت سریلی اور بلند آواز میں بلا کی تاثیر تھی۔ اس لیے جیسے ہی آپ ( علیہ السلام) زبور کی تلاوت کرتے جو منظوم تھی تو پہاڑ آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ گونجنے لگتے اور پرندے بھی مسحور ہو کر آپ ( علیہ السلام) کے گرد اترنے لگتے۔ پہاڑوں اور پرندوں کے مسخر کرنے کا یہی مفہوم ہے۔ اس مفہوم کے مراد لینے میں حرج تو کوئی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس میں حضرت دائود (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات اور آپ ( علیہ السلام) کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے بطورِخاص جس عمل کو تسخیر کا نام دیا ہے اور پھر مزید موکد اور مبرہن کرنے کے لیے یہ بھی فرمایا کہ یہ حیرت انگیز کمال حضرت دائود (علیہ السلام) سے اس لیے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے کرنے والے ہم تھے اور ہمارے لیے تو کوئی چیز نہ ناممکن ہے نہ مشکل۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو تأثر اور جو کیفیت کسی دوسرے خوش آواز آدمی سے پیدا ہوسکتی ہے اور جو صرف اس کی خوبصورت آواز کی تأثیر کا نتیجہ ہوتی ہے یہ یقینا اس سے زائد، منفرد اور ممتاز چیز تھی، ورنہ پروردگار اس اہتمام سے اس کا ذکر نہ فرماتے۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر تسبیح سے مراد صرف پہاڑوں کا گونجنا اور پرندوں کا اتر آنا ہے تو یہ بھی آپ ( علیہ السلام) کی کوئی خصوصیت نہیں۔ اس لیے کہ قرآن کریم ہی میں فرمایا گیا ہے : وَاِنْ مِنْ شَیْ ئٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰـکِنْ لاَّ تَْفقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ ” ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس تسبیح سے وہی ناقابلِ فہم تسبیح مراد لی جائے جو اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق کرتی ہے تو پھر اس آیت کریمہ میں جس تسبیح کا ذکر کیا گیا ہے اس کی کیا خصوصیت باقی رہے گی۔ ان تمام باتوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) جب اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہوتے تو بالکل انھیں الفاظ میں پہاڑ اور پرندے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے جن الفاظ میں حضرت دائود (علیہ السلام) کرتے تھے اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ اس کے کرنے والے یعنی اس کی صلاحیت دینے والے ہم تھے۔ ہم جسے چاہیں بولنے کی صلاحیت دے دیں۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کے معجزے سے مٹھی میں پتھر کے کنکروں نے کلمہ پڑھا اور پاس بیٹھنے والوں نے اپنے کانوں سے سنا۔ اسی طرح یہ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کناں ہوتے تھے۔
Top