Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور داود اور سلیمان کو یاد کرو جبکہ وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ دے رہے تھے جبکہ اس کو قوم کی بکریاں روند گئی تھیں، اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے۔
1:۔ حاکم نے وہب (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) کا نسب یہ تھا داود بن ایشابن عوید بن عابر یہوذابن یعقوب کی اولاد میں سے تھے داود (علیہ السلام) کا قد چھوٹا تھا آنکھیں نیلی تھیں بال تھوڑے تھے اور دل پاک تھا۔ حضرت داود (علیہ السلام) کی عدالت : 2:۔ ابن جریر نے مرہ (رح) سے (آیت) ” اذ یحکمن فی الحرث “ کے بارے میں روایت کیا کہ کھیتی اگی ہوئی تھی بکریوں نے اس کو رات کے وقت روند ڈالا وہ لوگ اپنا فیصلہ داود ع کے پاس لے آئے انہوں نے بکریوں کا فیصلہ کردیا کھیتی والوں کے لئے (یعنی بکریاں کھیتی والوں کودے دی جائیں) پھر وہ لوگ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس سے گذرے اور ان کو یہ فیصلہ بتایا تو انہوں نے فرمایا بکریاں (کھیتی والوں کو) مت دو مگر وہ ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں اور بکریوں والے انکی کھیتی پر کام کرتے رہیں جب کھیتی اتنی ہوجائے جتنی تھی تو کھیتی والے انکی بکریاں واپس کردیں تو اس فیصلہ پر یہ (آیت) ” ففھمنھا سلیمن “ نازل ہوئی۔ 3:۔ ابن جریر، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے سنن میں ابن مسعود ؓ سے (آیت) ” وداود وسلیمن اذ یحکمن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم “ کے بارے میں روایت کیا کہ انگوروں کی بیلیں اپنے گچھے اگا چکیں تھیں بکریوں نے ان کو خراب کردیا (یعنی انکو کھاگئیں) داود (علیہ السلام) نے بکریاں (دینے کا) فیصلہ فرمادیا کھیتی والوں کو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ کے نبی ! کیا اس کے علاوہ کوئی اور فیصلہ بھی ہوسکتا ہے ؟ داود (علیہ السلام) نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کھیتی بکریوں والوں کے سپرد کی جائے وہ اس پر محنت کریں یہاں تک کہ وہ پہلے کی طرح ہوجائے اور بکریاں کھیتی والوں کے حوالے کی جائے وہ اس سے نفع اٹھاتے رہے یہاں تک کہ جب کھیتی پہلے کی طرح تیارہوجائے کھیتی کے مالک کے حوالے کی جائے اور بکریاں اپنے مالک کے سپرد کی جائیں اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ففھمنھا سلیمن “۔ 4:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ وہ کھیتی جس کو قوم کی بکریاں روند گئی تھیں وہ انگور کا کھیت تھا بکریوں نے پتے اور انگور کھاڈالے یہ لوگ داود (علیہ السلام) کے پاس (فیصلہ لے کر) آئے داود (علیہ السلام) نے بکریاں کھیتی کے مالک کے حوالے کردیں سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا انگور والوں کے لئے انگوروں کی بیلیں اور ان کی زمین باقی ہے ان کے لئے فیصلہ اس طرح ہوگا کہ بکریاں کھیتی والوں کو دی جائیں وہ ان کا دودھ ان کی اون اور دوسرے منافع حاصل کرتے رہیں اور بکریوں کے مالک کو کھیتی دے دی جائے وہ اس کو آباد کریں اور اس کی اصلاح کریں یہاں تک کہ وہ اس حالت پر لوٹ آئے جیسے اس رات میں تھی جب بکریوں نے چرا تھا پھر بکری والوں کو ان کی بکریاں واپس دے دی جائیں اور انگور والوں کو ان کے انگور واپس دے دیئے جائیں۔ حضرت داود (علیہ السلام) کا فیصلہ : 5:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وداود سلیمن “ (سے لے کر) ” وکنا لحکمہم شھدین “ تک کے بارے میں روایت کیا کہ یعنی ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے اور یہ واقعہ اس طرح ہے کہ دو آدمی داود (علیہ السلام) کے پاس آئے ان میں سے ایک کھیت والا تھا اور دوسرا بکریوں والا تھا کھیت والے نے کہا اس آدمی نے اپنی بکریوں کو میرے کھیت میں چھوڑدیا میرے کھیت میں کچھ بھی باقی نہیں رہا (بکریاں سب کھا گئیں) داود (علیہ السلام) نے اس (کھیت والے) سے فرمایا جا یہ سب بکریاں تیری ہیں داود (علیہ السلام) نے اس طرح فیصلہ سنایا بکریوں والا سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو داود (علیہ السلام) کے فیصلہ کے بارے میں بتایا سلیمان (علیہ السلام) داود (علیہ السلام) کے پاس آئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی فیصلہ تو آپ کے فیصلے کے سوادرست ہے پوچھا وہ کس طرح ہے ؟ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کھیتی کی کل پیداوار سے مالک محروم ہوا ہے جو اسے ہر سال ملتی تھی اس کے لئے بکریوں والے کی بکریاں لے کر اس کے حوالے کی جائٰں تاکہ وان بکریوں کے بچوں سے اور ان کی اون سے نفع اٹھائے یہ ان تک کہ وہ کھیتی کی قیمت پوری کرے کیونکہ بکریوں کی ہر سال بچے پیدا ہوتے ہیں (یہ سنکر) داود (علیہ السلام) نے فرمایا تو ٹھیک فیصلہ تک پہنچا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسے تو نے فیصلہ کیا (اسی کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو صحیح فیصلہ سمجھا دیا۔ 6:۔ ابن جریر اور عبد الرزاق نے مجاہد ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے کھیتی کے بدلے میں ان کو بکریاں دے دی اور سلیمان (علیہ السلام) نے بکریوں کی کتری ہوئی اوان اور ان کے دودھ کا کھیتی والوں کے حق میں فیصلہ کا کیا تھا اور ان پر ہی بکریوں کا چرنا لازم کیا اور بکریوں والے کے انکے لئے کھیتی کریں گے یہاں تک کہ کھیتی اس دن کی طرح ہوجائے جس دن بکریوں نے کھائی تھی پھر وہ کھیت اس کے مالک کودے دیں اور (بکریوں والے) اپنی بکریوں کو واپس لے لیں۔ 7:۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ رات کے وقت بکریوں کے چھوٹنے کے لئے لفظ النفش استعمال ہوتا ہے۔ اور دن کے وقت چھوٹنے کے لئے الھمل استعمال ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ ہم کو یہ ذکر کیا گیا کہ ایک قوم کی بکریاں رات کو ایک کھیت میں واقع ہوگئیں یہ فیصلہ داود (علیہ السلام) کیطرف لے جایا گیا انہوں نے کھیتی والوں کے لئے ساری بکریوں کا فیصلہ فرمادیا (یعنی ساری بکریاں کھیت والوں کو دے دی جائیں) سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا یہ فیصلہ اس طرح نہیں ہے لیکن اس (کھیتی والے) کے لئے ان بکریوں کے بچے اور ان کے بال اور ان کا دودھ اور ان کی اون وغیرہ ہوں گے یہاں تک کہ آئندہ آنے والے سال تک کھیتی اس دن کی طرح ہوجائے جس دن اس کو کھایا گیا تھا تو بکریاں والے اپنی بکریاں لے لیں اور کھیتی والے اپنی کھیتی کو لے لیں (اس فیصلہ پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ففھمنھا سلیمن “ (کہ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو صحیح فیصلہ عطا فرمایا ) ۔ 8:۔ ابن جریر نے قتادہ اور زہری رحمہا اللہ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ بکریاں ایک قوم کی کھیتی میں جاپڑی ( اور سارا کھیت چٹ کرگئیں) تو داود (علیہ السلام) نے فیصلہ فرمایا کہ وہ کھیت والے بکریوں کو لے لیں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو صحیح فیصلہ سمجھا دیا جب ان کو داود (علیہ السلام) کے فیصلہ کی خبر دی گئی تو انہوں نے فرمایا یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے لیکن تم اس طرح پر بکریوں کو لے لو اور آئندہ سال تک جو ان کی اولاد اور اون وغیرہ حاصل ہو اس سے نفع حاصل کرو۔ 9:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابن جریر، ابن منذر اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں ایک عابدہ عورت تھی اکیلی رہتی تھی اس کی دو خوبصورت لونڈیاں تھیں وہ عورت تنہا رہتی تھی اور مردوں سے میل جول کا ارادہ نہیں رکھتی تھی ایک لونڈی نے دوسری سے کہا ہم پر آزمائش کا زمانہ لمبا ہوگیا یہ عورت مردوں سے میلاپ کا ارادہ نہیں رکھتی ہم جبتک اس کی فرمانبرداری میں رہیں گی تکلیف میں رہیں گی اگر ہم اس کو رسوا کردیں تو یہ رجم کردی جائے گی تو پھر ہم مردوں کی طرف پہنچ جائیں گی (یعنی ہم اپنی شادی کرلیں گی) وہ انڈے کا پانی لے آئیں اور اس کے پاس آئیں تو وہ سجدہ میں تھی انہوں نے اس کا کپڑاہٹایا اور اس کی دبر میں انڈے کا پانی چھڑک دیا اور شورمچا دیا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے اور ان میں جو زنا کرتا اس کی سزا رجم تھی داود (علیہ السلام) کے پاس مقدمہ لے جایا گیا اس حال میں کہ اس کے کپڑے میں انڈے کا پانی لگا ہوا تھا انہوں نے اس کے رجم کا ارادہ کیا سلیمان (علیہ السلام) نے کہا میرے پاس آگ لے آؤ اس وجہ سے کہ اگر یہ مردوں کا پانی ہے تو بکھر جائے گا اور اگر یہ انڈے کا پانی ہے تو اکٹھا ہوجائے گا آگ لائی گئی تو اس پر پانی رکھا گیا تو وہ پانی اکٹھا ہوگیا (اس طرح سے) اس عورت سے رجم کی سزا ہٹ گئی (اس فیصلہ) پر داود (علیہ السلام) سلیمان (علیہ السلام) پر بہت مہربان ہوئے اور ان سے محبت کرنے لگے پھر اس کے بعد کھیتی والوں اور بکریوں والوں کا واقعہ پیش آیا داود (علیہ السلام) نے کھیتی والوں کے لئے بکریوں کا فیصلہ کردیا (کہ ساری بکریاں ان کودے دی جائیں) پس وہ بکریاں لے کر نکلے اور ان کے چرواہے نکلے تو ان کے ساتھ کتے تھے سلیمان (علیہ السلام) نے پوچھا تمہارے درمیان کیسے فیصلہ ہوا ؟ انہوں نے (فیصلہ کے بارے میں) بتایا تو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا اگر میں انکے معاملے میں فیصلہ کرنے والا ہوتا تو میں اس فیصلہ کے علاوہ دوسرا فیصلہ کرتا داود (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ سلیمان (علیہ السلام) ایسا ایسا کہہ رہے ہیں انہوں نے ان کو بلوایا اور پوچھا تو انکے درمیان کس طرح فیصلہ کرتا ؟ تو سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بکریاں اس سال کھیتی والوں کو دے دی جاتیں تو ان کے لئے بکریوں کے بچے ان کی نسل اور ان کے دودھ اور ان کے دوسرے منافع ہوں گے۔ اور بکرویوں والے اس سال دوبارہ کھیتی کو اگائیں جب کھیتی اتنی مقدار کو پہنچ جائے جیسے تھی تو کھیتی والے اپنی کھیتی لے لیں اور بکریوں والوں کو ان کی بکریاں واپس کردی جائیں۔ 10:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” نفشت “ سے مراد ہے چرنا۔” رعت “ یعنی چرگئیں۔ 11:۔ طستی نے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ارزق نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” نفشت “ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا ” النفش “ سے مراد ہے رات کو بکریوں کا چرنا پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا کیا تو نے لبید کا قول نہیں سنا : بدلن بعد النفش الوجیفا وبعد طول الحزن الصریفا : ترجمہ : رات کو بغیر چرواہے کے کھیتی چرنے کے بعد اس کو ضرور بدل دیا جائے گا دوڑ میں (یعنی کھیتی کا مالک ان بکریوں کے پیچھے ضرور دوڑے گا) اور لمبے غم کے بعد اس کو آواز میں (ضرور بدل دیا جائے گا) یعنی لمبے غم کے بعد وہ ضرور آواز سے روئے گا۔ 12:۔ عبد الرزاق، ابن جریر، ابن ابی شیبہ احمد، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابوداود، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن منذر، اور ابن مرودیہ نے حرام بن محیصہ (رح) سے روایت کیا کہ کہ براء بن عازب ؓ کی اونٹنی ایک باغ میں داخل ہوگئی اور اس کو خراب کردیا۔ اس میں رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کے وقت باغ کی حفاظت باغ کے مالکوں پر ہے۔ اگر رات کو جانور کھیت خراب کردیں تو جانور کے مالک اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ 13:۔ ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ براء بن عازب ؓ کی عازب کیا اونٹنی ایک قوم کے باغ میں رات کے وقت داخل ہوگئی اور اس کو خراب کردیا۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دن کے و قت باغ کی حفاظت باغ والوں پر لازم ہے اور جانوروں والوں پر (لازم) ہے رات کو اپنے مویشیوں کی حفاطت کرنا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” وداود وسلیمن “ (الآیۃ) پھر فرمایا یہ بکریاں رات کے وقت کھیت میں داخل ہوئی تھیں۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں (آیت) ” ففھمنھا سلیمن “ پڑھا ہے۔ 15:۔ ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا تھا، داود (علیہ السلام) کو بھی ان کے فیصلے میں کوئی عیب نہیں لگا۔ 16:۔ عبدالرزاق نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ والوں میں سب سے ہلکے عذاب والا وہ آدمی ہوگا جس کے پاوں کے نیچے انگارے ہوں گے اور اس کی وجہ سے اس کا دماغ کھولے گا۔ ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کا جرم کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جس کے جانور ہوں وہ کسی کی کھیتی میں چھوڑ دے اور اس کو نقصان پہنچائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے (کسی کی) کھیتی کو اور اس کے اردگرد کے چالیس لہم کے علاقے کو۔ پس ڈروتم اس بات سے کہ آدمی پسند نہیں کرے گا اس چیز کو جو اس کے لئے دنیا میں ہو اور وہ اس کی جان کو ہلاک کردے آخرت میں۔ 17:۔ احمد، بخاری، مسلم اور نسائی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دو عورتوں کے ساتھ دو بچے تھے۔ بھیڑیا آیا اور ایک بچے کو لے گیا۔ دونوں عورتیں، داود (علیہ السلام) کے پاس اپنا مقدمہ لے گئیں۔ انہوں نے بڑی عورت کے لئے فیصلہ فرمادیا کہ بچہ اسی کا ہے ) ۔ پھر انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کے پاس دعوی کیا تو انہوں نے فرمایا میرے پاس چھری لے آؤ۔ میں اس بچے کو ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کردیتا ہوں۔ چھوٹی عورت نے کہا اللہ تجھ پر رحم فرمائے وہ (بچہ) اسی (بڑی عورت) کا بیٹا ہے اس کو آدھا آدھا نہ کر (یہ سن کر) سلیمان (علیہ السلام) نے چھوٹی عورت کے لئے فیصلہ فرما دیا۔ 18۔ ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بن اسرئیل (علیہ السلام) میں سے ایک حسین عورت تھی اس سے بنی اسرائیل کے چار روسا نے اپنی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا، اس نے ہر ایک سے انکار کردیا، ان لوگوں نے اس عورت پر تہمت لگانے میں آپس میں اتفاق کیا اور داود (علیہ السلام) کے پاس گواہی دی کہ اس عورت نے اپنے ایک کتے سے برائی کی ہے اور یہ ہمیشہ ایسا کرتی ہے۔ داود (علیہ السلام) نے رجم کا حکم فرمایا دیا۔ جب اس دن شام کا وقت تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) بیٹھ گئے۔ اور ان کے ساتھ ہم عمر بچے بھی جمع تھے آپ (علیہ السلام) بطور حاکم کے بیٹھے۔ ان میں سے چار بچے مردوں کے لباس میں آئے اور ایک عورت کے لباس میں آیا۔ ان مردوں نے عورت کے خلاف گواہی دی کے اس عورت نے کتے کے ساتھ زنا کیا ہے سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ان گواہوں کو علیحدہ علیحدہ کردو۔ ان میں سے پہلے پوچھا کہ کتے کا رنگ کیا تھا ؟ اس نے کہا کالا۔ اس کو علیحدہ کردیا پھر دوسرے کو بلایا اور کتے کا رنگ پوچھا اس نے کہا سرخ پھر تیسرے سے پوچھا اس نے کہا سیاہ پھر چوتھے سے پوچھا اس نے کہا سفید آپ (علیہ السلام) نے ان تمام گواہوں کے قتل کا حکم فرمایا دیا یہ فیصلہ داود (علیہ السلام) کو بتایا گیا تو انہوں نے فوری طور پر ان چاروں کو بلوایا اور ان سے علیحدہ علیحدہ کتے کا رنگ پوچھا تو انہوں نے علیحدہ علیحدہ رنگ بیان کئے تو انہوں نے ان چاروں کے قتل کا حکم فرمایا۔ 19:۔ احمد نے زہد میں ابن ابی نجیح (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ہم کو وہ بھی دیا گیا ہے جو لوگوں کو بھی دیا گیا اور وہ بھی دیا گیا ہے جو لوگوں کو نہیں دیا گیا اور ہم نے ہو بھی جان لیا جو لوگوں نے جان لیا اور وہ بھی جان لیا جو لوگوں نے نہیں جانا۔ اور ان تین کلمات سے کوئی چیز افضل نہیں پائی گئی بردباری غصہ میں، فقر اور غنا میں میانہ روی اور رضا میں رہنا۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چھپے ہوئے بھی اور ظاہری طور پر بھی۔ 20:۔ احمد نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا۔ اے میرے بیٹے ظالم بادشاہ کے غصہ سے بچ۔ کیونکہ اس کا غصہ ایسے ہے جیسے ملک الموت کا غصہ۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے خثیمہ (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ہم نے زندگی کی خوشحالی اور اس کی شدت کو آزمایا اور ہم نے اس کو پایا کہ زندگی میں کم مال بھی کافی ہوجاتا ہے۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ اور احمد نے یحی بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا۔ اے میرے بیٹے۔ اپنے اہل و عیال پر غیرت کی کثرت نہ کر، ورنہ اس وجہ سے تو ان پر برا الزام لگائے گا۔ اگرچہ وہ اس سے بری ہوگی۔ اے میرے بیٹے۔ خاموش رہنا حیا میں سے ہے اور اس سے انسان کا وقار ہے۔ اگر تو یہ پسند کرے کہ تو اپنے دشمن کو غصہ دلائے تو اپنے بیٹے سے لاٹھی کو نہ اٹھا۔ اے میرے بیٹے۔ جیسے کیل داخل ہوتی ہے دو پتھروں کے درمیان اور جیسے سانپ داخل ہوتا ہے دو سوراخوں کے درمیان۔ اسی طرح خطاء دو بیٹوں کے درمیان داخل ہوجاتی ہے۔ 23:۔ احمد نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا شیر کے پیچھے چل اور عورت کے پیچھے نہ چل۔ 24:۔ احمد نے یحییٰ بن ابی کثیررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے میرے بیٹے بری زندگی میں سے یہ ہے کہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہونا۔ خشیت الہی کو لازم پکڑ۔ کیوں کہ یہ ہر چیز پر غالب ہے۔ 25:۔ احمد نے بکر بن عبداللہ سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) سے فرمایا کون سی چیز زیادہ ٹھنڈی ہے۔ اور کون سے چیز زیادہ میٹھی ہے اور کون سے چیز زیادہ قریب ہے اور کون سی چیز زیادہ دور ہے۔ اور کون سی زیادہ تھوڑی ہے اور کون سی چیز بہت زیادہ ہے اور کون سی چیز زیادہ مانوس ہے اور کون سی چیز زیادہ وحشی ہے۔ ؟ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا سب سے زیادہ میٹھی چیز اللہ کی رحمت ہے اس کے بندوں میں۔ اور سب سے زیادہ ٹھنڈی چیز اللہ تعالیٰ کا معاف کردینا ہے اپنے بندوں کو۔ اور بعض بندوں کا ایک دوسرے کو معاف کردینا۔ اور سب سے زیادہ مانوس چیز وہ روح ہے جو جسم میں ہوتی ہے۔ اور سب سے زیادہ وحشی چیز جسم سے روح کا نکلنا ہے۔ اور سب سے زیادہ تھوڑی چیز یقین ہے اور سب سے زیادہ چیز شک ہے اور سب سے زیادہ قریب چیز دنیا سے آخرت ہے۔ اور سب سے زیادہ دور چیز آخرت سے دنیا ہے۔ 26:۔ احمد نے یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ کسی کام کا قطعی فیصلہ نہ کر حتی کہ کسی رہنما سے مشورہ کرلے جب تو مشورہ کرلے تو پھر اس کام پر کبھی پریشان نہ ہو۔ اور فرمایا اے میرے بیٹے۔ غربت اور سکنت کے ساتھ گناہ بہت برا ہے۔ اور بڑی گمراہی ہدایت ہے بعد ہے اور اس سے زیادہ برا وہ شخص ہے جو عبادت گذار تھا پھر اس نے اپنے رب کی عبادت کو چھوڑ دیا۔ 27:۔ احمد نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا عجب ہے اس تاجر کے لئے۔ وہ کس طرح نجات پائے گا جو دن کو (جھوٹی) قسمیں کھاتا ہے اور رات کو سوجاتا ہے۔ 28:۔ احمد نے یحییٰ بن ابی کثیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے میرے بیٹے چغل خوری سے بچ کیونکہ وہ تلوار کی دھار کی طرح ہے۔ قاضی (فیصلہ کرنے والوں کی) تین قسمیں ہیں : 29:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے حماد بن سلمہ کے طریق سے حمید الطویل (رح) سے روایت کیا کہ ایاس بن معاویہ (رح) کو جب قاضی بننے کے لئے کہا گیا۔ تو ان کے پاس حسن ؓ آئے اور ان کو غمگین دیکھا اور ایاس (رح) رونے لگے حسن ؓ نے پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا اے ابوسعید (یہ حسن ؓ کنیت ہے) مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ قاضی تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ شخص جو فیصلہ کی صحت کے لئے کوشش کرتا ہے مگر خطاء کرتا ہے تو وہ دوزخ میں ہوگا۔ اور دوسرا وہ آدمی کہ اس کے ذریعے خواہش کیطرف مائل ہوگیا وہ بھی آگ میں ہوگا اور تیسرا وہ آدمی جو فیصلہ کی صحت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور ٹھیک فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ جنت میں ہوگا حسن ؓ نے فرمایا اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کا جو واقعہ قرآن میں بیان فرمایا وہ تمہاری اس بات کو رد کرتا ہے پھر یہ (آیت) ” وداود وسلیمن اذ یحکمن فی الحرث “ پڑھی۔ اور یہاں تک پہنچے (آیت) ” وکلا اتینا حکما وعلما “ اس میں سلیمان (علیہ السلام) کی تعریف فرمائی اور داود (علیہ السلام) کی خدمت نہیں فرمائی پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا عہد لیا۔ تھوڑے پیسوں میں اس کی آیات کو نہ بیچیں۔ اور خواہشات کے پیچھے نہ لگیں۔ اور لوگوں سے نہ ڈریں۔ پھر یہ آیت پڑھی۔” یداود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض “ (الآیۃ) اور فرمایا (آیت) ” فلا تخشوا الناس واخشون “ (المائدۃ : 44) اور فرمایا (آیت) ” ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا “ (المائدۃ : 44) 30:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عظمہ میں قتادہ ؓ سے (آیت) ” وسخرنا مع داود الجبال یسبحن والطیر “ کے بارے میں روایت کیا کہ (پہاڑ اور پرندے) داود (علیہ السلام) کے ساتھ نماز پڑھتے تھے جب وہ پڑھتے تھے (آیت) ” وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم “ کے بارے میں ہم نے داود (علیہ السلام) کو زرہ بنانے کا ہنر سکھایا پہلے زرہیں سیدھی ہوتی تھیں سب سے پہلے داود (علیہ السلام) نے زرہ کو حلقوں اور کڑیوں والا بنایا۔ 31:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے عظمہ میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم “ سے مراد ہیں لوہے کی زرہیں (آیت) ” لتحصنکم من باسکم “ یعنی اسلحہ کی زد سے تم کو محفوظ رکھے۔ 32:۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لتحصنکم “ کو نون کے ساتھ پڑھا۔ 33:۔ فریابی نے سلیمان بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) کے اللہ ذکر میں جب سستی آجاتی تو پہاڑوں کو حکم فرماتے وہ تسبیح کرنے لگتے یہاں تک کہ آپ (علیہ السلام) ان کا ذکر سن کر (اللہ کی ذکر کی طرف) مشتاق ہوجاتے۔ 34:۔ ابن شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کی عمر ہزارسال تھی اور داود (علیہ السلام) کی عمر ساٹھ سال تھی۔ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا۔ اے میرے رب میری عمر میں سے چالیس سال ان کی عمر زیادہ کردیجئے تو آدم (علیہ السلام) کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہزار سال پورے کردیئے۔ اور داود (علیہ السلام) کے لئے سو سال پورے کردیئے۔ 35:۔ ابن ابی شیبہ مصنف میں، ابن ابی الدنیا نے ذکر الموت میں اور حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ داود (علیہ السلام) نے اچانک ہفتہ کے دن وفات پائی۔ پرندے ان پر رک گئے ان پر سایہ کرتے ہوئے۔ 36:۔ ابن ابی شیبہ اور حاکم (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں۔ پہلے انسانوں میں سے شرفاء لوگ آتے اور آپ (علیہ السلام) سے ملی ہوئی (کرسیوں پر) بیٹھ جاتے۔ پھر جنات میں سے شرفاء آتے اور وہ انسانوں کے ساتھ ملکر بیٹھ جاتے۔ پھر پرندوں کو بلاتے وہ ان پر سایہ کرتے۔ پھر ہوا کو بلاتے وہ ان سب کو اوپر اٹھاتی اور ایک ماہ کا راستہ ایک صبح میں طے کرلیتی۔ تخت سلیمانی کی وسعت : 37:۔ حاکم نے محمد بن کعب (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر سوفرسخ (لمبا) تھا۔ اس میں سے پچیس فرسخ انسانوں کے لئے اور پچیس فرسخ جنوں کے لئے۔ اور پچیس فرسخ وحشی جانوروں کے لئے۔ اور پچیس فرسخ پرندوں کے لئے اور آپ (علیہ السلام) کے لئے لکڑی پر ایک ہزار شیشے کے کمرے تھے۔ ان میں تین سو دن کے لئے اور سات سو رات کے لئے تھے۔ تیز ہوا کو حکم فرماتے تو وہ اس کو اوپر اٹھا لیتی پھر ہوا کو حکم فرماتے تو وہ اس تخت کو لے کر چلنے لگتی۔ اللہ تعالیٰ نے انکی طرف وحی فرمائی کہ میں تیری بادشاہی میں مزید اضافہ کرتا ہوں کہ جو بھی کسی چیز کے بارے میں کلام کرے گا تو ہوا آئے گی۔ اور وہ تجھ کو خبر دے گی۔ 38:۔ ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) ہوا کو حکم فرماتے تو وہ بڑے ٹیلے کی طرف جمع ہوجاتی۔ آپ اپنے تخت کو ایک بلند جگہ رکھنے کا حکم فرماتے تو اس کو اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا۔ پھر پروں والے گھوڑے کو بلاتے وہ آپ کے لے کر تخت پر سوار ہوجاتا۔ پھر ہوا کو حکم فرماتے تو وہ آپ کے تخت کو ہر اونچی جگہ سے اوپر لے جاتی آسمان سے نیچے۔ پر آپ اپنے سر کو جھکائے رکھتے تھے۔ اللہ کے لئے تعظیم کرتے ہوئے اور شکر کرتے ہوئے کہ اللہ کے ملک میں جو کچھ ہے وہ ان کے ماتحت ہے اور آپ ادھر ادھر متوجہ نہ ہوتے تھے اور ہوا آپ کو وہاں اتارتی تھی جہاں آپ اترنا چاہتے تھے۔ 39:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی لکڑی کی ایک مرکب تھا اور اس میں ہزار حصے تھے ہر حصے میں ہزار کمرے تھے، آپ کے ساتھ اس مرکب میں جن اور انسان سوار ہوتے تھے ہر حصے کے نیچے ہزار شیطان تھے۔ جو اس مرکب کو اٹھاتے تھے۔ جب وہ مرکب بلند ہوجاتا تو نرم ہوا آتی اس کو لے چلتی اور جن آپ کے ساتھ ساتھ چلتے۔ آپ نے اپنی قوم کو ہمیشہ لشکروں کی صورت میں رکھا۔ یعنی ہر وقت کسی جنگی مہم پر روانہ ہوتے اور لوگوں کو بھی ساتھ رکھتے۔ 40:۔ ابن عساکر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولسلیمن الریح عاصفۃ “ سے مراد ہے تیز ہوا (آیت) ” تجری بامرہ الی الارض التی برکنا فیھا “ سے مراد ہے شام کی زمین۔ 41:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولسلیمن الریح “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وارث بنایا سلیمان (علیہ السلام) کو داود (علیہ السلام) کا اور ان کی نبوت کا اور ان کے ملک کا وارث بنایا۔ اور اس پر یہ زیادہ کیا کہ ان کے لئے ہوا کو اور شیاطین کو تابع کردیا۔ 42:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولسلیمن الریح “ یعنی ہم نے ان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا (یعنی ان کے تابع کردیا) 43:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن الشیطین من یغوصون لہ “ کے بارے میں فرمایا کہ جن پانی میں غوطہ لگاتے تھے۔ 44:۔ طبرانی اور دیلمی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے سانپ کی دم کے بارے میں ذکر کیا گیا تو آپ نے پوچھا (وہ کیا ہے) مجھ کو سناوتو اس طرح سنایا گیا (پڑھا گیا جس کے الفاظ یہ ہیں) ” بسم اللہ شجتہ قرنیتہ ملحتہ بحرقطفا “ (یہ سن کر) آپ نے فرمایا یہ وہ معاہدہ ہے جو سلیمان (علیہ السلام) نے کیڑوں مکوڑوں سے کیا تھا۔ اور میں اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا (اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ایک منتر ہے بخار کا حدیث میں وارد ہوا ہے اس کے معنی معلوم نہیں۔ 45:۔ حاکم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ بنواسحاق نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے ملک سلیمان (علیہ السلام) تک تاریخ لکھی تھی۔
Top