Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور دائود و سلیمان۔ (کا حال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کے مقدمہ کا فیصلہ کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چر گئیں اور اسے روند گئی تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کے وقت موجود تھے۔
سیدنا دائود اور سلیمان (علیہ السلام) کے کارنامے تشریح : سیدنا دائود اور سیدنا سلیمان (علیہما السلام) دونوں باپ بیٹا تھے اور نبی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ حکمران بھی تھے۔ باقی نبیوں کی طرح آپ کو بھی کتاب آسمانی دی گئی جو زبور کے نام سے مشہور ہے اور آپ بنی اسرائیل کے حکمران تھے۔ فہم و فراست اور حکمت و دانائی اللہ کی طرف سے آپ کو ملی ہوئی تھی۔ مگر یہاں کچھ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اپنے والد سیدنا دائود سے زیادہ معاملہ فہم تھے جیسا کہ اس مقدمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ بکریوں نے کھیت اجاڑ دیا تو سیدنا دائود نے فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والے کو دے دی جائیں۔ اللہ نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو وحی سے بتایا تو آپ نے فیصلہ اس طرح کیا کہ بکریاں کھیت والے کو اتنی دیر کے لیے دی جائیں جتنی دیر بکریوں والا کھیت کو کاشت کر کے اسی حالت میں لے آئے جس میں بکریوں نے اس کو اجاڑا تھا۔ یہ فیصلہ باپ نے اور دونوں مقدمہ کرنے والوں نے بخوشی منظور کرلیا۔ ظاہر یہ ہوا کہ اگر ایک قاضی سے دوسرا قاضی زیادہ بہتر فیصلہ کرے تو فیصلہ بدلنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔ یہ تو صرف ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والا نیک نیت ہو تو ہلکی پھلکی غلطی گناہ میں شامل نہ ہوگی۔ فہم و فراست اور تقویٰ کے علاوہ اللہ نے آپ دونوں کو کچھ خاص کمالات عطا کر رکھے تھے۔ مثلاً سیدنا دائود (علیہ السلام) کو اللہ نے خوش آواز اس حد تک بنایا تھا کہ جب آپ اپنی کتاب زبور کی آیات کو وجد و سرور سے بلند آواز میں جو کہ سریلی ‘ موثر اور دل میں اتر جانے والی ہوتی تھی ‘ پڑھتے تو انسان تو کیا پہاڑ اور پرندے بھی اس وجد میں آجاتے کہ آپ کے ساتھ وہ بھی اللہ کی تسبیح و تقدیس میں شامل ہوجاتے۔ معلوم ہوا کہ ایک سچے پکارنے والے کی آواز آتش فشاں سے بھی زیادہ سخت زبردست ہوتی ہے۔ کیونکہ بولنے والا اللہ کی ذات میں گم ہو کر خود کو بھول جاتا ہے اور اس کی آواز خالصتاً اللہ کی آواز بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر وہ کچھ لکھتا ہے تو اپنے خون جگر سے لکھتا ہے۔ اس کی بات صرف بات نہیں ہوتی بلکہ روح انسانی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ مگر انسان اتنا بےحس ہے کہ اس کو جنت کا نقشہ دکھایا جاتا ہے جہنم کا عذاب بتایا جاتا ہے۔ غرض ہر طرح اس کو سمجھایا جاتا ہے مگر پھر بھی اکثریت اپنے کفر و شرک پر ہی اڑی رہتی ہے۔ بہرحال سیدنا دائود (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور بھی بہت بڑی صلاحیت دے رکھی تھی اور وہ تھی زرہ بنانے کا فن آپ کو اللہ نے اپنی قدرت سے یہ ملکہ عطا کیا ہوا تھا کہ لوہا آپ کے ہاتھ میں موم کی طرح نرم ہوجاتا تھا۔ اسی لیے آپ جو زرہیں بناتے تھے وہ پہلے بننے والی زر ہوں سے کئی گنا زیادہ مفید پائیدار اور بہترین ہوتی تھیں۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور 1200 اور 1000 قبل مسیح کے درمیان شروع ہوا اور یہی سیدنا دائود کا زمانہ ہے۔ “ (از تفہیم القرآن صفحہ 175 ) رشد و ہدایت کی تبلیغ کے علاوہ سیدنا دائود (علیہ السلام) نے انسان کی بھلائی کے لیے بڑی اچھی زرہیں بنائیں جو لڑائی کے وقت انسان کو جسمانی نقصان سے بچاتی تھیں۔ کیونکہ اس وقت تیر و تلوار سے جنگ ہوتی تھی تو یہ لوہے کا لباس تیر و تلوار کے وار کو جسم تک پہنچنے سے بچا لیتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ یاد کرواتے ہیں ان انبیاء کے ذریعہ تم تک پہنچنے والی تمام نعمتیں ہم نے ہی انسان کی بھلائی کے لیے پیدا کی ہیں۔ اس لیے ہر لمحہ اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرتے رہو تو یہی تمہارے لیے بہترین راستہ ہے۔ سیدنا دائود (علیہ السلام) کے بارے میں تفصیلاً سورة بقرہ میں گزر چکا ہے اب آپ کے بیٹے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے انعامات کا ذکر ہو رہا ہے۔ پہلا انعام تو آپ کو یہ دیا گیا کہ ہوا کو آپ کے تابع کردیا گیا تھا یہ قدرت اللہ رب العزت نے آپ کو خاص طور سے عطا کر رکھی تھی کہ تیز اور آہستہ ہوا کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) (اللہ کی اجازت سے) اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتے تھے۔ اسی لیے آپ ایک دن میں دو ماہ کا سفر ہوا کے دوش پر آسانی سے کرلیتے تھے۔ یعنی جہاں بھی جانا چاہتے اور جس وقت واپس اپنے وطن شام میں آنا چاہتے باآسانی آسکتے تھے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نعوذ باللہ وہ اللہ ہوگئے۔ کیونکہ سب کچھ دینے والا واپس لینے والا اور کنٹرول کرنے والا تو صرف وہی الہ العلمین ہے جو ذرے ذرے کا علم رکھنے والا ہے۔ وہ تو صرف ایک مقبول انسان تھے۔ دوسری مہربانی اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر یہ کی تھی کہ آپ اللہ کی مرضی کے تحت سرکش جنوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتے تھے۔ آپ ان سے بیشمار سخت اور مشکل کام لیتے تھے مثلاً سمندروں میں غوطے لگا کر قیمتی زر و جواہر اور موتی آپ کے لیے نکال کر لاتے اسی طرح کئی اور مشکل کام وہ حکم کے مطابق بغیر شرارت کے پوری فرمانبرداری سے کرتے تھے۔ اور اس میں اصل کمال تو اللہ ہی کا ہے کہ جس نے اتنی بڑی جنوں کی طاقت کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ مزید تفصیلات انشاء اللہ سورة سباء میں بیان کی جائیں گی۔ مندرجہ بالا مضمون کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں سے مغرور ہو کر اللہ کو بھول نہیں جانا چاہیے سیدنا دائود و سلیمان کو ہر ہر طرح سے عزت آسائش اور زبردست اختیارات اللہ نے دیے مگر وہ ہر صورت اللہ جل شانہ ‘ کی عبادت ‘ فرمانبرداری اور شکر گزاری میں مشغول رہتے۔ کبھی بھی ناشکری اور غفلت سے کام نہ لیتے تھے۔ بلکہ اپنے فرائض بڑی نیک نیتی ‘ محنت اور خلوص سے ادا کرتے رہے اور شکر و زہد میں زندگیاں گزار دیں۔ اسی طرح اللہ اپنے بندوں کو خاص طور سے انبیاء (علیہم السلام) کو کبھی سختی ‘ مصیبت ‘ پریشانی اور نقصانات سے آزماتا ہے اور کبھی خوشحالی ‘ سکون اور رحمتوں کی فراوانی سے آزماتا ہے۔ جیسا کہ نصیحت کے لیے آگے آیات میں سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top