Tafseer-e-Baghwi - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور داود اور سلیمان (کاحال بھی سن لو کہ) جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے جس میں کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چرگئیں (اور اسے روندگئی) تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کے وقت موجود تھے
تفسیر۔ 78۔ وداود و سلیمان اذ یحکمان فی الحرث، حرث کی تفسیر میں آئمہ کا اختلاف ہے۔ ابن مسعود اور ابن عباس اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے کہ یہ کھیتی انگوروں کی بیل کی تھی اور جس پر حرث کا لفظ دلالت کرتا ہے قتادہ کا بیان ہے کہ وہ کھیتی تھی۔ اذ نفشت فیہ غنم القوم، اس نے رات کو بکریاں چرائیں پھر اس کو فاسد کردیا۔ نفش کہاجاتاہے کہ رات کو بکریاں چرانا، اور ھمل کہاجاتا ہے بغیر چروائے کے بکریوں کا چرنا، وکنالحکمھم شاھدین، اس کا علم نہیں ہے اور اس کو دیکھتے تھے ہم ، یہ ہم سے کیسے مخفی ہوسکتا ہے ۔ فراء نے کہا کہ صرف حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) مراد ہیں۔ جمع کا صیغہ بول کر تثنیہ کا صیغہ ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس۔ اگر میت کے چند بھائی ہوں تو اس کی ماں کا کل مال کا چھٹا حصہ ہوگا۔ اخوہ سے مراد کم ازکم دوبھائی ہیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہماالسلام کا ایک کھیت کے بارے میں فیصلہ۔ حضرتابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قتادہ اور زہری نے بیان کہ دوآدمی حضرت داؤد کے پاس آئے ایک کھیت کا مالک تھا اور دوسرابکریوں کا مالک۔ کھیت والے نے کہا اس کی بکریاں رات کو چھوٹ کر میرے کھیت میں پڑگئیں اور سارا کھیت چرگئیں۔ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ حضرت داؤد نے فیصلہ کیا کہ کھیت کے عوض وہ بکریاں کھیت والے کودے دی جائیں، حضرت داؤد کے پاس سے دونوں حضرت سلیمان کے پاس آئے، حضرت سلیمان نے پوچھاتم دونوں کے مقدمہ کاکیافیصلہ ہوا، جو فیصلہ حضرت داؤد نے کیا تھا دونوں نے بیان کردیا، حضرت سلیمان نے فرمایا اگر تمہارا مقدمہ میرے سپرد کردیاجاتا میرا فیصلہ کچھ اور ہوتا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلیمان نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا فیصلہ دونوں کے لیے فائدہ بخش ہوتا۔ حضرت سلیمان کے اس قول کی اطلاع حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بھی ہوگی۔ آپ نے سلیمان کو بلوا کر فرمایا تم فیصلہ کرو۔ دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضرت داؤد نے اپنی نبوت اور حق پدری کا واسطہ دے کر فرمایا مجھے بتاؤ وہ کیا فیصلہ ہے۔ جو فریقین کے لیے سود مند ہے ؟ حضرت سلیمان نے کہا بکریاں کھیت والے کو دیے دیجئے اور کھیت بکریوں کے مالک کے سپر د کردیجئے ، کھیت والا بکریوں کے دو ودھ اون اور نسل سے اتنی مدت تک فائدہ اندوز ہوتا رہے جتنی مدت تک کھیت بکریوں والے کی سپردگی میں رہے۔ بکریاں کا مالک کھیت کو درست کردے اس میں بیج بکھیر دے اور جب کھیتی تیار ہوکراصلی حالت پر آجائے تو تیار کھیت کھیت والے کودے دے اور اپنی بکریاں واپس لے لے۔ حضرت داوڈ نے فرمایا صحیح فیصلہ یہی ہے جو تم نے کیا۔ پھر آپ نے یہ فیصلہ جاری کردیا۔ روایت میں آتا ہے کہ فیصلہ کرنے کے وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر گیارہ سال کی تھی۔ حرام بن سعد بن محیصہ سے روایت ہے کہ حضرت براء بن عازب کی اونٹنی باغ میں داخل ہوگئی۔ اس میں نقصان کردیا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ باغ والے دن کے وقت اس کی حفاظت کریں (اورجانوروں والے رات کو اپنے جانوروں کی حفاظت کریں) اگر رات کے وقت کسی کا جانور کسی کا نقصان کردے تو وہ ذمہ دار ہے۔ اصحاب الری کا قول ہے کہ اگر جانور کے ساتھ اس کا مالک نہ ہو تو پھر مالک پر ضمان نہیں ہوگا خواہ وہ دن کو نقصان پہنچائے یا رات کو نقصان پہنچائے۔
Top