Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور داود اور سلیمان پر بھی ہم نے اپنا فضل کیا۔ یاد کرو جب کہ وہ ایک کھتی کے مقدمے کا فیصلہ کر رہے تھے جب کہ اس میں کچھ لوگوں کی بکریاں شب میں جا پڑی تھیں اور ہم ان کے اس قضیہ پر نگاہ رکھے ہوئے تھے
آگے کا مضمون …… آیات 94-78 اوپر کی آیات میں، ایک تاریخی ترتیب کے ساتھ، ان انبیائے عظام کا ذکر ہوا جو ملتوں اور امتوں کے بانی ہوئے، اب آگے ایک صفاتی ترتیب کے ساتھ ان انبیاء کا ذکر آ را ہے جو اپنی صفات اور اپنے کردار کے اعتبار سے پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا ذکر فرمایا جو بادشاہی اور درویشی کے امتزاج کی بہترین مثال تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے شوکت دنیا عطا فرمائی لیکن وہ اس کے فتنوں میں مبتلا ہونے کے بجائے برابر خدا کے شکر گزار رہے اور اپنی تمام صلاحیتیں اور اپنے تمام وسائل و ذرائع انہوں نے اپنے رب ہی کی رضا جوئی میں صرف کئے۔ اس کے بعد حضرت ایوب، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا جو اپنے صبر کے اعتبار سے تمام انسانیت کے گل سرسبد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے امحتانوں میں ان کو ڈالا اور ہر امتحان میں یہ ثابت قدم رہے۔ اس کے بعد حضرت یونس، حضرت زکریا اور حضرت مریم (علیہم السلام) کا ذکر فرمایا جنہوں نے نہایت تاریک اور مایوس کن حالات کے اندر اپنے رب کو پکارا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کے لئے اپنی رحمت خاص سے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ ان انبیائے کرام کی زندگیوں میں ان متکبرین کے لئے بھی درس ہے جو خدا کی نعمتیں پا کر خدا ہی سے اکڑ رہے تھے اور پیغمبر ﷺ اور آپ کے مظلوم صحابہ کے لئیھی درس ہے جو آزمائش کے ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہے تھے اور جن کو سامنے کی راہ بالکل رندھی ہوئی نظر آرہی تھی۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 79-78 دائود سلیمان یہاں اسی طرح منصوب ہیں جس طرح اوپر نوحاً منصوب ہے یعنی سیاق کلام کی روشنی میں کوئی فعل محذوف مانیں گے۔ ہم نے ترجمہ میں اس محذوف کو کھول دیا ہے۔ نقش کے معنی بکریوں یا مویشیوں کا شب میں چرنا اور ففھمنھا میں ضمیر مئونث اس مرجع کے لئے آئی ہے جو سیاق کلام سے مستنبط و متبادر ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ حضرت دائو د کے ایک مقدمہ کی طرف اشارہ اور اس اشارہ سے مقصود دائود و سلیمان کی عدل گستری یہاں ایک مقدمہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو حضرت دائود کی عدالت میں پیش ہوا۔ اس مقدمہ کی کوئی تفصیل نہیں فرمائی ہے۔ بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی بکریوں کا ریوڑ کسی کے کھیت میں جا پڑا تھا۔ حضرت دائود نے اس کا فیصلہ فرمایا لیکن اس فیصلہ میں وہ معاملہ کی تہہ تک نہ پہنچ سکے۔ ان کے فرزند حضرت سلیمان نے جو ابھی کمسن ہی تھے، اپنی رائے پیش کی جو زیادہ صائب اور قرین عدل تھی۔ بالآخر حضرت دائود نے انہی کی رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ یہ سوال کہ باپ نے کیا فیصلہ کیا اور بیٹے نے کیا رائے دی، خارج از بحث ہے اس لئے کہ قرآن کا مقصد یہاں مقدمہ کی رو داد پیش کرنا نہیں ہے بلکہ ایک تو یہ دکھانا ہے کہ حضرت دائود ایک حکمران اور پیغمبر ہونے کے باوجود اپنے فیصلوں میں اتنے محتاط تھے کہ اپنے ایک اجتہاد کا ضعف، اپنے ایک کم عمر فرزند کے توجہ دلانے سے بھی جب ان پر واضح ہو یا تو انہوں نے فوراً اپنا فیصلہ بدل دیا اور اپنے سے ایک فروتر کی رائے قبول کرلی دوسری یہ بات دکھانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود کو ایک ایسا فرزند عطا فرمایا جو اپنے عنفوان شباب ہی سے ایسی اعلیٰ قوت فیصلہ رکھتا تھا کہ بسا اوقات اپنے عظیم باپ کو بھی مشورے دیتا تھا اور باپ اس کے فیصلوں کی قدر کرتا تھا۔ یہ کسی باپ کی بہت بڑی خوش قسمتی ہے کہ اس کو ایسا لائق بیٹا عطا ہو جو امور حکومت میں نہ صرف اس کا دست وبازو بنے بلکہ بسا اوقات اس کی رہنمائی بھی کرے۔ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے یہاں اس مقدمہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہمارے مفسرین نے اس مقدمے کی جو تفصیل پیش کی ہے وہ قرآن سے ایک بالکل خارج چیز ہے۔ اس کی مختلف شکلیں فرض کی جاسکتی ہیں لیکن ان کی نوعیت بالکل مفروضات کی ہے اور ہم مفروضات کے در پے ہونا پسند نہیں کرتے۔ حکمران کا اصل جوہر وکنا لحکمھم شھدین یعنی ہم اس خاندان کے لوگوں کو اپنی زمین میں حکومت دے کر بالکل الگ تھلگ نہیں جا بیٹھے تھے بلکہ دیکھتے رہے تھے کہ وہ کیا بناتے ہیں، رعایا کے اندر امن و عدل قائم کرنے کا ان کو کتنا احساس ہے، اور اپنی ذمہ داریوں کے معاملے میں وہ کتنے زیرک، کتنے محتاط اور کتنے بےنفس اور غیر جانبدار ہیں۔ چناچہ ان باپ بیٹے نے یہ ثابت کردیا کہ دونوں اس منصب کے پوری طرح اہل ہیں۔ بیٹے نے جونہی محسوس کیا کہ باپ سے درباب عدل ہے بےچون و چرا اس نے حق کے آگے اپنے آپ کو جھکا دیا۔ یہی کردار حکمرانی کا اصل جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو اپنی زمین میں خلافت دیتا ہے اسی جوہر کو پرکھنے کے لئے دیتا ہے۔ وکلا اتینا حکماً و علماً یعنی ان کا یہی جوہر ہے جس کی بنا پر ہم نے ان میں سے ہر ایک کو حکمت اور نبوت سے نوازا۔ حکمرانی کے ساتھ درویشی وسخرنا مع دائود الجبال یسبحن والطیر یہ حضرت دائود کی درویشی کی طرف اشارہ ہے کہ ایک طرف تو ہم نے ان کو تحت حکومت پر بٹھایا تھا، وہ پوری بیدار مغزی اور بےنفسی کے ساتھ رعایا کے اندر امن و عدل قائم کرتے تھے۔ دوسری طرف ان کے تعلق باللہ کا یہ حال تھا کہ وہ شب میں پہاڑوں میں نکل جاتے اور ان کے حمد و تسبیح کے نغموں اور گیتوں کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجتی اور پرندے بھی ان کی ہمنوائی کرتے۔ یہ امر محلوظ رہے کہ تورات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت دائود نہایت خوش الحان تھے اور اس خوش الحانی کے ساتھ ساتھ انکے اندر سوز و ورد بھی تھا۔ مزید برآں یہ کہ ان کی تمام مناج اتیں گیتوں اور نغموں کی شکل میں ہیں اور یہ گیت الہامی ہیں۔ ان گیتوں کا حال یہ ہے کہ زبور پڑھیے تو اگرچہ ترجمہ میں ان کی شعری روح نکل چکی ہے لیکن آج ھبی ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل سینہ سے نکل پڑے گا۔ حضرت دائود جیسا خوش الحان اور صاحب سوز و درد جب ان الہامی گیتوں کو پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر سحر کے سہانے وقت میں پڑھتا رہا ہوگا تو یقینا پہاڑوں سے بھی ان کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رہی ہوگی اور پرندے بھی ان کی ہمنوائی کرتے رہے ہوں گے۔ یہ نہ خیال فرمایئے کہ یہ محض شاعرانہ خیال آرائی ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، اپنے رب کی تسبیح کرتی ہے لیکن ہم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ ان کا یہ شوق تسبیح اس وقت اور بھڑک اٹھتا ہے۔ جب کوئی صاحب درد کوئی ایسا نغمہ چھیڑ دیتا ہے جو ان کے دل کی ترجمانی کرتا ہے، اس وقت وہ بھی جھوم اٹھتے ہیں اور اس کی لے میں اپنی لے ملاتے ہیں۔ اگر پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح ہم نہیں سنتے سمجھتے تو یہ خیال نہ کیجیے کہ اس کو کوئی دوسرا بھی نہیں سنتا سمجھتا۔ وہ لوگ اس کو سنتے اور سمجھتے ہیں جن کے سینوں میں دل گداختہ ہوتا ہے۔ مولانا روم نے خوب بات فرمائی ہے۔ فلسفی کو منکر حنانہ است از حواس انبیاء بےگانہ است اسی حقیقت کی طرف مرزا غالب نے یوں اشارہ کیا ہے۔ محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا اس ٹکڑے کا اسلوب بیان بھی قابل غور ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ سخرنا لہ بلکہ اسلوب بدل کر سخرنا معہ فرمایا۔ معہ سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ حضرت دائود کی تسبیح میں اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں اور پرندوں کو بھی ان کا شریک بزم بنا دیا تھا۔ جب وہ اپنا نغمہ حمد چھیڑتے تو یہ بھی ان کی ہمنوائی کرتے۔ زبان کا ایک نکتہ یہاں معطوف اور معطوف علیہ یعنی جبال اور طیر کے درمیان فعل یسبحن حائل ہے۔ حالانکہ بظاہر اس کو طیر کے بعد آنا چاہئے۔ فعل کی اس تقدیم کی وجہ یہ ہے کہ پرندوں کی تسبیح خوانی تو ایک معروف بات ہے البتہ پہاڑوں کی نواسنجی ایک نادربات تھی۔ اس وجہ سے فعل کو ان سے متصل کردیا۔ خدا ساز بات وکنا فعلین یعنی یہ کام کسی اور کے کرنے کے نہیں بلکہ ہمارے ہی کرنے کے تھے اور ہم ہی ان کے کرنے والے بنے۔ ہم جس کے لئے چاہیں شجر و حجر، دریا، پہاڑ اور چرند و پرند ہر چیز کو اس کے پیچھے لگا دیں۔ خدا کی یہ نعمتیں کسی کو اس کے اپنے زور و اقتدار سے نہیں ملتیں بلکہ خدا ہی کے دینے سے ملتی ہیں۔
Top