Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 73
لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق مردوں وَالْمُنٰفِقٰتِ : اور منافق عورتوں وَالْمُشْرِكِيْنَ : اور مشرک مردوں وَالْمُشْرِكٰتِ : اور مشرک عورتوں وَيَتُوْبَ : اور توبہ قبول کرے اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ : اور مومن عورتوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تاکہ انجام کار اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو اور اپنی توجہ (اور عنایت) سے نوازے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے
146 تحمل امانت کے نتیجہ و انجام کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تاکہ انجام کار اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو "۔ یعنی { لِیُعَذِّبَ } کا لام لام تعلیل نہیں لام عاقبت ہے۔ جیسا کہ سورة قصص کی اس آیت کریمہ میں ہے ۔ { فَالْتَقَطَہُ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا } ۔ (القصص : 8) ۔ یعنی آل فرعون کے اس عمل و اختیار کا انجام اور نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ وہ بچہ بالآخر ان کا دشمن اور ان کیلئے غم کا باعث بن جائے۔ جیسا کہ بعد میں امر واقع سے ثابت ہوگیا۔ سو ایسے ہی یہاں پر ہے کہ حمل امانت کے اس عمل و اختیارکا نتیجہ یہی ہونا ہے اور یہی ہوگا کہ جو لوگ سچے ایمان اور اس کے نتیجے میں صدق عمل کی دولت سے سرشار ہوں گے وہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ کی خاص توجہ اور عنایت سے مشرف ہوں گے۔ اور ابدی فوز و فلاح اور حقیقی و دائمی کامیابی سے بہرہ ور و سرفراز ہوں گے۔ اور جنہوں نے اس کے مقابلے میں کفر وعناد اور بغاوت و سرکشی سے کام لیا ہوگا اور منافقت برتی ہوگی وہ دائمی خسارے میں پڑیں گے اور ہولناک عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اس امانت اور اس کے تحمل کا لازمی نتیجہ یہ ہونا تھا اور یہی ہوگا کہ ایک دن ایسا آئے جس میں اس کے بارے میں پوچھ ہو۔ اور یہ ظاہر ہو کہ کس نے اسکا حق ادا کیا۔ تاکہ ان لوگوں کو جنہوں نے اس بارے منافقت کا رویہ اپنایا ہوگا یا جو شرک کے مرتکب ہوئے ہوں گے ان کو اپنے اس جرم کی سزا ملے اور وہ اپنے کیے کرائے کا بھگتان بھگتیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں۔ اور جنہوں نے دولت ایمان سے مشرف ہو کر اس کا حق ادا کیا ہوگا وہ اپنے رب کی رحمتوں اور عنایتوں سے مشرف و سرفراز ہوں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں۔ تاکہ ہر حقدار کو اس کے کیے کرائے کا پورا پورا حق ملے۔ اور اس طرح اس عدل و حکمت کے تقاضے پورے ہوں جو حکمتوں بھری اس کائنات کے وجود اور اس کی تخلیق کا مقتضیٰ ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل - 147 اللہ تعالیٰ کی صفات بخشش و رحمت کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا " اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے "۔ یعنی اس کے یہاں کا معاملہ اس کے اپنے بندوں سے خوردہ گیری کا معاملہ نہیں ہوگا کہ وہ ان کو ہر خطا و لغزش پر پکڑے بلکہ وہاں پر فضل و کرم اور بخشش اور مغفرت کا معاملہ ہوگا کہ وہ ان کے گناہوں کو بخشتا ہی جائے گا کہ وہ " غفور " یعنی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔ بشرطیکہ بندہ تمردو سرکشی کا رویہ نہ اپنائے بلکہ ہمیشہ اسی کی طرف رجوع رہے اور صدق و اخلاص اور توبہ و استغفار سے کام لیتا رہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ وہ عفو و درگز سے کام لیتا ہے اور بس۔ نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی رحمتوں اور عنایتوں سے بھی نوازتا ہے کہ وہ " غفور " کے ساتھ ساتھ " رحیم " بھی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ فَاِیَّاکَ نَسْال اللّٰہُمَّ اَنْ تَتْوْبَ عَلَیْنَا فِیْ کُلِّ حال مِنَ الأحوال وتغفرلَنَا جَمِیْعَ الْمَعَاصِی والْخَطَایا والذنوب والزَّلات مَا صَدَرَ مِنَّا عَمَدًا أوْخَطَائً اَو نِسْیَانا وَاَنْ تُشَرِّفَنَا بالنَّعِیْمِ الْمُقِیْمِ فی جنّات الخلد والنعیم بِمَحْضِ مَنِّکَ وَکَرَمِکَ فَانک انْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمْیِنَ وَاَکرَمُ اْلاَکْرَمِینْ وانت الذی لا حد لجودک وکرمک واحسانک، تبارک وتعالیت، نستغفرک ونتوب الیک۔
Top