Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 69
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ٤ۖۛۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا تم نے اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی آیات اَنّٰى : کہاں يُصْرَفُوْنَ : پھرے جاتے ہیں
اے مخاطب کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں کہاں الٹے پھرے جا رہے ہیں
دوزخیوں کا طوقون اور زنجیروں میں گھسیٹا جانا، دوزخ میں داخل ہونا اور ان سے یہ سوال ہونا کہ تمہارے باطل معبود کہاں ہیں اوپر چند آیات کا ترجمہ ذکر کیا گیا ہے اولاً ان لوگوں کی وعید ذکر فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑے بازی کرتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اور اللہ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ عنقریب اپنی سزا کو جان لیں گے جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی اسی حالت میں فرشتے انہیں گھسیٹتے ہوئے کھولتے ہوئے پانی میں لے جائیں گے پھر یہ لوگ آگ میں جھونک دئیے جائیں گے وہاں ان سے دریافت کیا جائے گا کہ اللہ کے سوا تم نے جو معبود بنا رکھے تھے وہ سب کہاں گئے یہ لوگ اول تو یوں کہیں گے کہ وہ سب غائب ہوگئے ہمیں ان سے کچھ نفع نہیں پہنچا پھر کہیں گے کہ ہم تو کسی کو پوجتے ہی نہ تھے صاحب روح المعانی نے اس کے دو مطلب لکھے ہیں اول یہ کہ آج ہمیں پتہ چلا کہ ہم اللہ کے سوا جن لوگوں کی پوجا کرتے تھے وہ لوگ کچھ بھی نہ تھے معلوم ہوا کہ ہم سب غلطی پر تھے ایسی چیز کی پرستش کی جو لاشئ محض تھی دوسرا مطلب یہ لکھا ہے کہ وہ لوگ وہاں غیر اللہ کی پرستش سے انکاری ہوجائیں گے اور قصداً و ارادۃً جھوٹ بولیں گے جیسا کہ سورة انعام میں ہے کہ وہ یوں کہیں گے۔ (وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ) ان لوگوں کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرمایا (کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکٰفِرِیْنَ ) اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو گمراہ کرتا ہے یہاں اس دنیا میں جس چیز کے نافع ہونے کا خیال باندھے ہوئے ہیں اور اسی خیال سے غیر اللہ کی پوجا کرتے ہیں قیامت کے دن ان معبود ان باطلہ کو لا شئ محض قرار دے دیں گے بلکہ ان کی پوجا ہی سے منکر ہوجائیں گے حیرت اور پریشانی کی وجہ سے جھوٹ پر اتر آئیں گے (ذٰلِکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَفْرَحُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ) (یہ عذاب اس لیے ہے کہ تم ناحق زمین پر اتراتے پھرتے تھے) (وَبِمَا کُنْتُمْ تَمْرَحُوْنَ ) (اور اس وجہ سے یہ عذاب ہے کہ تم اکڑ مکڑ کرتے تھے) دنیا میں جو نعمتیں تمہیں دی گئیں ان میں لگ کر تم منعم حقیقی سے غافل ہوگئے اور آخرت کو بھول گئے، فرح اور مرح دونوں نے تمہارا ناس کھو دیا (ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا) (تم دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے) (فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ ) (سو برا ٹھکانہ ہے تکبر کرنے والوں کا جب تمہارے سامنے حق آتا تھا توحید پیش کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تمہارے پاس دعوت حق لے کر آتے تھے تو تم ان کی بات قبول کرنے میں اپنی ہیٹی سمجھتے تھے اور انسلٹ جانتے تھے آج اس تکبر کا بدلہ چکھ لو جہنم میں عذاب بھی ہے اور ذلت بھی۔ اوپر جو (یُسْحَبُوْنَ فِی الْحَمِیْمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُوْنَ ) فرمایا ہے اس پر بعض اہل علم نے یہ اشکال کیا ہے کہ سورة دخان کی آیت (ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَاْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ جحیم کا عذاب حمیم سے پہلے ہے حقیقت میں اس میں کوئی تعارض اور تنافی نہیں ہے کیونکہ سورة زمر کی آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ بالکل ابتداء میں داخل جحیم سے پہلے حمیم کا عذاب ہوگا دوزخ میں داخل ہونے کے بعد کبھی حمیم ہو کبھی جحیم ہو اس طرح تقدم اور تاخر ہوتا رہے اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو صبر کی تلقین فرمائی (فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ) آپ صبر کیجیے بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے کفر پر جو کافروں کو عذاب ہوگا وہ یقینی ہے (فَاِِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ ) ہم ان سے جس عذاب کا وعدہ کر رہے ہیں اگر ہم آپ کے سامنے اس میں سے کچھ حصہ آپ کو دکھلا دیں آپ کی حیات میں اس کا نزول اور ظہور ہوجائے یا اس کے نزول سے پہلے ہی ہم آپ کو وفات دے دیں تو یہ دونوں باتیں ہوسکتی ہیں جو بھی صورت ہو بہرحال ان سب کو ہمارے ہی پاس آنا ہے لہٰذا ہم ان کو آخرت میں کفر کی سزا دے دیں گے۔
Top