Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 69
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ٤ۖۛۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا تم نے اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی آیات اَنّٰى : کہاں يُصْرَفُوْنَ : پھرے جاتے ہیں
کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں یہ کہاں بھٹک رہے ہیں
رکوع نمبر 8: آیات 69 ۔ تا۔ 78: اسرار و معارف ؛ ذرا ان لوگوں کو دیکھ جو ایسے عظیم پروردگار کے احکام کا انکار کرتے ہیں بلکہ اپنی خرافات کو درست منوانے پہ زور لگا رہے ہیں یہ کس قدر گمراہ ہیں اور بھٹک رہے ہیں کہ اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب کا انکار کرتے ہیں جس میں جو کچھ ارشاد ہے سراسر حق ہے اور یونہی پھینک نہیں دی اللہ نے اپنا رسول مبعوث فرمایا کتاب کے ساتھ کہ اس کی شرافت نیکی اور ورع تقوی مثالی ہے مگر انہیں کچھ اثر نہیں تو اس کا نتیجہ بھی بہت جلد ان کے سامنے آجائے گا جب ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر اور انہیں زنجیروں میں جکڑ کر دوزخ کے کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا اور پھر دوزخ کے بھڑکتے شعلوں میں پھینک دیا جائے گا تب ان سے سوال ہوگا کہ عظمت الہی کا انکار کرنے والو وہ تمہارے معبودان باطلہ کہاں ہیں جن کو تم عمر بھر پوجا کیے وہ شیاطین ہوں جن ہوں یا اسباب تو کہیں گے سب کچھ کھو گیا جیسے ہم نے تو کسی کی عبادت کی ہی نہیں یعنی جن کو ہم اپنا آسرا سمجھے وہ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتے یہی کفر کی مصیبت ہے کہ اللہ ناراض ہو کر اسے ایسی بےکار محض شے میں پھنسا دیتا ہے اور یہ سزا تمہیں اس لیے ملی دنیا میں گمراہ ہونے اور آخرت میں دوزخ کی کہ تم دنیا میں ناحق اکڑتے تھے اور تمہیں اپنی انا پہ بہت فخر تھا اللہ کی بات ماننا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ سو اب دوزخ کا دروازہ کھلا جاؤ داخل ہوجاؤ کہ تکبر کرنے والوں کا کس قدر برا ٹھکانہ ہے۔ اور آپ ﷺ یا اے بندہ مومن تو صبر اختیار کر ان کی ایذ پر بھی اور بندہ مومن کے لیے خاص طور پر عقیدہ پہ استقامت بھی بہت بڑا صبر ہے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور کافر سے جن عذابوں کا وعدہ ہے وہ تیرے سامنے ان پر وارد ہوں یا تیرا وقت پورا ہوجائے اور بعد میں کفر کی شوکت ٹوٹے یہ تو نظام دنیا ہے مگ رآخرت میں تو ہر حال سب نے ایک ہی وقت ہماری بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ اور آپ (ﷺ) سے پہلے بھی بہت رسول مبعوث ہوئے بعض کی باتیں ہم نے تفصیل سے بتا دیں اور بعض کا تذکرہ نہیں کیا گیا مگر یہ بات طے ہے کہ اللہ کے رسول ہر کام اللہ کی پسند سے کرتے تھے اور معجزات بھی اس کی اجازت سے ظاہر ہوتے تھے شعبدہ بازوں کی طرح انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بازی گری نہیں کرتے کہ جب کسی نے جیسا کہا ویسے کرنے بیٹھ گئے اور جب فیصلہ کی گھڑی آئے گی تو پورا پورا انصاف ہوگا اور سب جھگڑے چکا دئیے جائیں گے تب باطل پرستوں کو سمجھ آئے گی کہ وہ کس قدر نقصان میں رہے۔
Top