Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaafir : 69
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ١ؕ اَنّٰى یُصْرَفُوْنَ٤ۖۛۚ
اَلَمْ تَرَ : کیا نہیں دیکھا تم نے اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : جو لوگ يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی آیات اَنّٰى : کہاں يُصْرَفُوْنَ : پھرے جاتے ہیں
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کی طرف جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی آیتوں میں ، کدھر پھیرے جا رہے ہیں یہ لوگ ؟
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید کے سلسلے میں اپنی قدرت کی کچھ نشانیوں میں انسانی تخلیق کے مختلف ادوار کا بیان ہوا زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنانے کا تذکرہ ہوا ، پھر فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت اور پاکیزہ روزی عطا کی اور ساتھ یہ بھی کہ موت وحیات کا سر رشتہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی تلقین کی کہ ان دلائل قدرت میں غور وفکر کے توحید الہی کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ّ (آیات الہی میں جھگڑا) اب آج کے درس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کافروں اور مشرکوں کا شکوہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مذکورہ واضح نشانیوں کے باوجود یہ لوگ ان میں جھگڑا کرتے ہیں اور ان کو تسلیم نہیں کرتے ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم تر الی الذین یجادلون فی آیت اللہ “۔ کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے ہیں ؟ آیات سے مراد معجزات ، دلائل اور احکام ہیں بعض لوگ ان پر خواہ مخواہ اعتراض کرتے ہیں جس کی وجہ محض ان کا عناد ضد اور ہٹ دھرمی ہے وگرنہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات برحق ہیں ، گذشتہ سورة میں گزر چکا ہے کہ آیات الہی میں جھگڑے سے مقصود حق کو کمزور اور باطل کو غالب کرنا ہے ، فرمایا اس قسم کی باتیں کرکے (آیت) ” انی یصرفون “۔ یہ لوگ کدھر پھیرے جا رہے ہیں ، مطلب یہ کہ ایسے لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کے راستے پر چل رہے ہیں ۔ فرمایا جھگڑا کرنے والے لوگ وہی ہیں (آیت) ” الذین کذبوا بالکتب “۔ جنہوں نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن کریم کو جھٹلا دیا اور اسے وحی الہی ہونا تسلیم نہ کیا (آیت) ” وبما ارسلنا بہ رسلنا “۔ اور اس چیز کو بھی جھٹلا دیا جو ہم نے رسولوں کو دے کر بھیجا ہے ، اللہ کے نبیوں کو دی جانے والی چیز میں دین شریعت احکام اور معجزات شامل ہیں ، کفار ومشرکین نے ان سب چیزوں کی تکذیب کی فرمایا اس کا نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” فسوف یعلمون “۔ کہ ان کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ یہ کس قدر غلطی میں مبتلا تھے ، (آیت) ” اذالاغلل فی اعناقھم “۔ جب کہ طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے (آیت) ” والسلسل “۔ اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی اغلال غل کی جمع ہے جس کا معنی گلے کا طوق ہے اور یہ ذلت کی علامت ہے سلاسل یعنی پاؤں کی بیڑیوں کی متعلق سورة الحاقہ میں آتا ہے سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعا “۔ (آیت : 32) کہ یہ ستر ستر گز لمبی ہوں گی جن میں مجرموں کو جکڑا جائے گا (آیت) ” یسبحون “۔ پھر ان کو گھسیٹا جائے گا (آیت) ” فی الحمیم “۔ کھولتے ہوئے پانی کی طرف لفظ ” حمیم “۔ اضداد میں سے ہے اس کا معنی مخلص دوست بھی ہوتا ہے اور یہ لفظ گرم اور ٹھنڈے پانی پر بھی بولا جاتا ہے اس مقام پر سخت گرم کھولتا ہوا پانی مراد ہے جب مجرموں کو پیا تنگ کرے گی ، اور وہ پانی مانگیں گے تو انہیں گھسیٹ کر کھولتے ہوئے پانی کے قریب لایا جائے گا جسے وہ پی نہیں سکیں گے ، اور ایک آدھ گھونٹ اندر چلا بھی گیا (آیت) ” فقطع امعاء ھم (محمد : 15) تو وہ ان کی آنتیں کاٹ نیچے پھینک دے گا اس کے بعد کیا ہوگا ؟ (آیت) ” ثم فی النار یسجرون “۔ ان کو آگ میں جھونک دیا جائے گا یعنی جہنم میں پھینک دیا جائے گا ، فرمایا اس وقت ان بدبختوں کو پتہ چلے گا کہ وہ آیات الہی اور انبیاء کی طرف سے لائے جانے والے معجزات ، شرائع اور احکام کو کس طرح جھٹلاتے رہے ۔ (معبودان باطلہ کی تلاش) فرمایا (آیت) ” ثم قیل لھم این ما کنتم تشرکون “۔ پھر ان سے کہا جائے گا کہ آج کہاں ہیں وہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے تھے (آیت) ” من دون اللہ کے علاوہ دنیا میں جن سے غلط توقعات وابستہ کر رکھی تھی ، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کو نذر ونیاز پیش کرتے تھے ، بتلاؤ آج وہ کہاں ہیں اور تمہاری مدد کے لیے کیوں نہیں آتے ؟ (آیت) ” قالوا ضلوا عنا “۔ مجرم جواب دیں گے کہ ہمارے وہ جعلی معبود تو آج ہم سے گم ہوگئے ہیں کہیں نظر نہیں آتے ، صاحب تفسیر کشاف علامہ زمخشری (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اتنی ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ سوال ہوگا کہ وہ سامنے نہیں آسکیں گے مجرم کہیں گے کہ وہ تو آج بھاگ گئے (آیت) ” بل لم نکن ندعوا من قبل شیئا “۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل ہم کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے ، مطلب یہ کہ جن معبودان باطلہ پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے آج پتہ چلا کہ ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ، دراصل ہم کسی چیز کو نہیں پکارتے تھے ، ہم نے ان کو بلاوجہ سفارشی یا مختار سمجھ رکھا تھا اور امید رکھتے تھے کہ یہ ہمیں مشکل وقت میں چھڑا لیں گے مگر آج تو وہ ہم سے گم ہوگئے ہیں اور ہمارے کسی کام نہیں آسکتے ، دنیا میں یہ ہماری سخت بھول تھی اس وقت یہ لوگ اپنی غلطی کا اعتراف کریں گے فرمایا جس طرح سے بےوقت کا اعتراف مفید نہیں ہوگا ، (آیت) ” کذلک یضل اللہ الکفرین “۔ اسی طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ کا فروں کو گمراہ کردیتا ہے ان کی نیت اور ارادے اچھے نہیں ہوتے ، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تکبر اور غرور میں مبتلا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دنیا میں راہ راست نصیب نہیں ہوتا اور وہ زندگی بھر بھٹکتے رہتے ہیں ۔ (جرم اور سزا) فرمایا آج ان کی گردنوں میں طوق ، پاؤں میں بیڑیاں اور جہنم رسیدگی اس وجہ سے ہے (آیت) ” ذلکم بما کنتم تفرحون فی الارض بغیر الحق “۔ کہ تم دنیا کی زندگی کی دوران ناحق خوشی مناتے رہتے تھے ، (آیت) ” وبما کنتم تمرحون “۔ اور اس وجہ سے بھی کہ تم اتراتے تھے یعنی غرور کرتے تھے ، فرح مطلقا بری چیز نہیں ہے بلکہ اچھے کام پر خوشی کا ہونا اچھی بات ہے ، بعض اوقات جب کوئی نعمت ملتی ہے تو ایمان والے خوش ہوتے ہیں اور یہ ایمان کی نشانی ہے مگر یہاں اس خوشی کا ذکر ہو رہا ہے جو ناحق ہو اور جس کے پس پردہ اکٹر غرور اور شیخی ہو ایسی خوش درست نہیں ہے ، فرمایا چونکہ تم دنیا میں ناحق خوشی میں مبتلا تھے ، (آیت) ” اخلوا ابواب جھنم “۔ آج اس کے بدلے میں جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ، خلدین فیھا “۔ جہاں تم ہمیشہ رہو گے ، دروازوں کا مطلب یہ ہے کہ جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مجرمین اپنے اپنے مخصوص دروازوں سے جہنم میں داخل ہوں گے فرمایا (آیت) ” فبئس مثوی المتکبرین “۔ پس کتنا برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کا اسی تکبر کی وجہ سے کفر اور شرک کا ارتکاب کیا ، اللہ تعالیٰ کی کتاب ، احکام اور آیات کو جھٹلایا ، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی ، لہذا اب اس غرور کی سزا بھی بھگتو “۔ ّ (نصرت الہی کا وعدہ) اب آگے نبی کریم ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کے لیے تسلی کا مضمون ہے دنیا میں کفار ، مشرکین اور مکذبین کی طرف سے بڑی تکلیف دہ باتیں سننا پڑتی ہیں اور جسمانی اذیتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مصائب پر (آیت) ” فاصبر ان وعداللہ حقا “۔ صبر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور نافرمانوں کو ضرور سزا ملے گی ، اللہ تعالیٰ نے سورة الروم میں فرمایا ہے (آیت) ” وکان حق علینا نصر المؤمنین “۔ (آیت : 47) اہل ایمان کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے آپ دل برداشتہ نہ ہوں ، اپنا کام جاری رکھیں ، صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھیں ، اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی مدد کرے گا ، اور بالاخر آپ ہی کامیاب ہوں گے یہ مکی دور کے آخری حصے کی سورتیں ہیں جب مسلمان سخت تکالیف برداشت کر رہے تھے ، پھر جلدی ہی آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے ، اسلامی ریاسیت کی بنیاد پڑی اور پھر آپ کو پے درپے کامیابیاں حاصل ہونے لگیں حتی کہ جس مکہ مکرمہ سے آپ راتوں رات ہجرت کے لیے نکلے تھے اسی شہر میں آپ فاتحانہ انداز میں داخل ہو ہوئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ظاہری کامیابی کا وعدہ بھی پورا فرما دیا ، بدر کے مقام پر کفار کے ستر بڑے بڑے لیڈر قتل ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بہت بڑی کامیابی عطا فرمائی تھی ، کفار کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئی تھیں حضور ﷺ اس کنوئیں کی منڈیر پر کھڑے ہوگئے اور بڑے بڑے ائمۃ الکفر مقتولین کو آواز دے کر کہا ، اے ابوجہل ، اے تبہ ، اے شیبہ اللہ نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ تو اس نے آج پورا کردیا بتلاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہار ساتھ جو وعدہ کیا تھا تم نے بھی اسے سچا پایا ہے یا نہیں ؟ آج تمہیں تمہاری بدکرداری کی سزا ملی یا نہیں ؟ (ایفائے عہد کا وقت) فرمایا آپ صبر کریں اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے (آیت) ” فاما نرینک بعض الذی نعدھم “۔ بس ، تو ہم آپ کو دکھا دیں گے وہ چیز جو ان سے ہم وعدہ کرتے ہیں اور آپ کے مخالفین سے وعدہ یہ ہے (آیت) ” سیھزم الجمع ویولون الدبر “۔ (القمر : 45) کہ عنقریب یہ جماعت شکست کہا جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ، مطلب یہ کہ یہ وعدہ یا تو ہم آپ کی زندگی میں ہی پورا کردیں گے اور آپ اسے پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ (آیت) ” او نتوفینک “۔ یا ہم آپ کو وفات دے دیں گے اور اس کے بعد یہ وعدہ پورا ہوگا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ عرب کا خطہ خود حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں اسلام کے زیرنگیں آگیا کفر کے بڑے بڑے سردار مارے گئے اور یہ واقعہ 2 ھ میں جنگ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھا دیا ، پھر آہستہ آہستہ سارا عرب کفار ومشرکین سے پاک ہوگیا البتہ دوسرے ممالک آپ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کے زمانے میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے ، شام ، روم ، فلسطین ، اور افریقہ وغیرہ آپ کے بعد فتح ہوئے بہرحال اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا اس کا کچھ حصہ آپ کی زندگی میں پورا ہوگیا اور کچھ حصہ بعد میں پورا ہوا فرمایا (آیت) ” فالینا یرجعون “۔ بالاخر یہ سب ہماری طرف ہی لوٹائے جائیں گے سب کو قیامت والے دن ہمارے روبرو حاضر ہونا ہے اور اپنے اپنے عقائد و اعمال کا حساب دینا ہے ، پھر ہم جزائے عمل کے فیصلے کریں گے آپ تسلی رکھیں ، ان کا فیصلہ ہو کر رہے گا ، (سابقہ انبیاء کا اسوہ) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تسلی کے سلسلے میں ہی پہلے نبیوں کا حال بھی بیان کیا ہے (آیت) ” ولقد ارسلنا رسلا من قبلک “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو بھیجا (آیت) ” منھم من قصصنا علیک “۔ ان میں سے بعض کے حالات ہم نے آپ کے سامنے بیان کردیے ہیں ۔ (آیت) ” ومنھم من لم نقصص علیک “۔ اور بعض کے حالات ہم نے آپ کے سامنے بیان نہیں کیے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بائیس انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے نام ذکر کردیے ہیں اور بعض نے حالات تفصیل کے ساتھ اور بعض کے اجمالا بیان کیے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء اور رسل کو اپنے احکام اور دین کی سربلندی کے لیے دنیا میں بھیجا اور انہوں نے اپنے اپنے دور میں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے حق کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ، حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے نبیوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا ہے ، تو فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار جن میں سے صاحب کتاب و شریعت رسول تین سو پندرہ اور باقی سارے صاحب وحی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام تھے غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بعض کے حالات آپ کے سامنے بیان کئے ہیں اور بعض کے نہیں ۔ سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مقام پر اٹھارہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا تذکرہ کرکے فرمایا ہے (آیت) ” اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ (آیت : 91) یہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ، لہذا آپ بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں سورة الانعام ہی میں ہے (آیت) ” وما نرسل المرسلین الا مبشرین ومنذرین “۔ (آیت : 49) ہم نے ہر رسول کو بشارت سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تمام انبیاء ایمان اور نیکی کے کاموں پر جنت کی بشارت دیتے رہے اور کفر وشرک اور بداعمالی پر ڈر سناتے رہے ، مطلب یہ کہ انذار وتبشیر انبیاء اور رسل کے فرائض منصبی میں شامل ہے ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ، ورسل کے تفصیلی حالات بیان کیے ہیں اور بعض کے بالکل نہیں کیے تاہم ہر اہل ایمان کے لیے تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے یہ تسلی کا مضمون بھی آگیا ۔ (معجزہ غیر اختیاری چیز ہے) اگلے حصہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصولی طور پر بات بیان کردی ہے (آیت) ” وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ کسی رسول یا نبی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی یا معجزہ پیش کرسکے ، مکی زندگی میں کفار ومشرک طرح طرح کی نشانیاں طلب کرتے تھے کبھی کہتے زمین میں چشمے جاری کردیں کبھی کہتے تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کے باغا ہونے چاہئیں ، کبھی کہتے ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے تمہارے لیے سونے کا گھر ہونا چاہئے یا آسمان پر چڑھ جا اور ہمارے سامنے کتاب لے کر آ جسے ہم پڑھ سکیں اس کا ذکر سورة اسرائیل میں موجود ہے ، مگر اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ کہہ دین میرا پروردگار پاک ہے (آیت) ” ھل کنت الا بشرا رسولا “۔ (آیت : 93) میں تو ایک انسان رسول ہوں ، مطلب یہ کہ معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ کوئی نشانی ظاہر کردیتا ہے اسی اصول کو یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ کسی رسول کے لائق نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی یا معجزہ پیش کرسکے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ہاتھوں پر بیشمار معجزات دکھائے اور خود حضور خاتم النبیین ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ معجزات عطا کیے مگر یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا ، کسی نبی کے اختیار میں نہ تھا ، الغرض ! اللہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ صبر سے کام لیں سابقہ انبیاء (علیہم السلام) کا اسوہ پیش نظر رکھیں اور اپنا مشن کمزور نہ ہونے دیں ۔ (جزائے عمل کی منزل) فرمایا آپ تسلی رکھیں (آیت) ” فاذا جآء امر اللہ قضی بالحق “۔ جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا ، تو حق کے ساتھ فیص (رح) کردیا جائے گا ہر کافر ، مشرک اور بدعقیدہ کا محاسبہ ہونے والا ہے جب ان کا مقدمہ پیش ہوگا تو ان کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا جس کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا (آیت) ” وخسر ھنالک المبطلون “۔ کہ باطل پرستوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑے گا کفر شرک اور غرور وتکبر کرنے والوں اور غلط عقائد رکھنے والوں کا فیصلہ ہوجائے گا ، ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا اور ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا ، اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل کا مسئلہ بھی بیان فرما دیا ۔
Top